موجودہ حالات میں بچوں کو حصول علم سے روکنے میں اصل رکاوٹ سے والدین بری الذمہ نہیں مگر اصل رکاوٹ ملک میں پھیلی ہوئی مہنگائی ہے جس نے بچوں کو اسکولوں سے دور کر رکھا ہے۔
ملک میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے پرائمری اسکول ہیں جہاں برائے نام فیس پر بچوں کو آسانی سے داخلے مل جاتے ہیں اورکتابیں کاپیاں بھی سستی ہیں ملک میں پرائمری اسکولوں میں تختیاں لکھنے اور سلیٹوں کا رجحان تو کب کا ختم ہو چکا اور نئی نسل تختیوں اور سلیٹوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور نجی اسکول ہوں یا سرکاری پرائمری اسکول ہر جگہ الف، بے، پے یا اے بی سی بھی اب کاپیوں پر لکھوائی جاتی ہے۔
پرائمری اسکولوں میں سرکاری طور پر کتابیں بھی فراہم کی جانے کی اطلاعات ہیں مگر زیادہ شکایات ہیں کہ سرکاری طور ملنے والی یہ کتابیں بچوں کو برائے نام ملتی ہیں اور ردی میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔
جب پرائمری اسکولوں میں بچوں کو مفت کتابیں نہیں ملیں گی تو وہ کیسے پڑھیں گے، اس سوال پر محکمہ تعلیم توجہ ہی نہیں دیتا۔ مفت تعلیم کا آسرا دے کر غریب لوگوں کو ترغیب دی جاسکتی ہے کہ ان کے اخراجات نہیں بڑھیں گے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو سرکاری پرائمری اسکولوں میں ضرور داخل کرائیں تو ممکن ہے غریب لوگ مفت تعلیم کی سہولت کے باعث بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے لگیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے سالوں قبل تک سنتے تھے کہ باقاعدگی سے اسکول آنے والے بچوں کو ایک ایک ہزار روپے دیے جاتے تھے۔
یہ سلسلہ بعد میں بند ہو گیا یا کرپشن کی نذر ہو گیا، بچوں کی کچھ مالی مدد ہو جاتی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں شاید یو ایس ایڈ سے پرائمری اسکولوں میں خشک دودھ اورگھی کے ڈبے زیر تعلیم بچوں کو سرکاری طور پر دیے جاتے تھے اور بچوں کو نمک اور سرسوں کا تیل سرکاری طور پر فراہم کرکے دانت صاف کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی اور بعد میں یہ سب سہولتیں ختم ہو گئیں۔ نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا غریبوں کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔
دوسرے پرائمری اسکولوں میں اساتذہ بچوں کی حاضری پر توجہ دیتے ہیں نہ والدین دلچسپی لیتے ہیں اور یہ تاثر عام ہے کہ پرائمری اسکولوں میں تعلیم پر اساتذہ کی توجہ ہی نہیں ہوتی اور بچوں کو وہاں بھیجنا محض وقت ضایع کرنا ہے، اس لیے بچہ کچھ بڑا ہو جائے تو اسے کوئی کام سیکھنے پر لگا دیا جائے یا کہیں چند ہزار کے لیے ملازم رکھوا دیا جائے حالانکہ ملک میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے مگر اس قانون پر بھی عمل نہیں ہو رہا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اب انتہائی تشویش ناک صورت حال اختیار کر چکی ہے اور لوگ اپنے بچوں کو ملازمت پر رکھوا کر چند ہزار روپے کا حصول بھی بڑا سہارا سمجھتے ہیں۔
ایک پروگرام میں مشہور فنکار بتا رہے تھے کہ بڑے ممالک میں تعلیم مفت تو ہے مگر اسکول انتظامیہ غیر حاضر بچوں کے والدین کے پاس پولیس بھیج کر باز پرس کرتی ہے جب کہ پنجاب کے کسی علاقے میں حکومت نے اسکول تو تعمیر کرا دیا مگر پڑھنے کے لیے علاقے کا ایک بھی بچہ اسکول میں داخل نہیں اور اساتذہ مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں تو کیا یہ اسکول انتظامیہ والدین کے پاس جا کر انھیں آمادہ نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے بچوں کو کم سے کم پرائمری تعلیم ہی دلا دیں۔
فنکار کے خیال میں حکومت کو پولیو کی طرح تعلیم کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور پولیو قطرے زبردستی پلوانے کی طرح ہر جگہ والدین پر سختی کرنی ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو پرائمری اسکولوں میں داخل کرائیں اور چند ہزار روپے کے حصول کے لیے بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔ چائلڈ لیبر کے قانون پر بھی سختی سے عمل کروا کر والدین کو مجبور کیا جائے کہ وہ بچوں کو پرائمری کی تعلیم ضرور دلائیں اور بعد میں ہی کوئی ہنر انھیں سکھائیں اور کم عمر بچوں کو ملازمتوں پر مجبور نہ کریں۔