انھوں نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں مالی نظم وضبط آہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے خرچے پورے نہیں ہورہے جس کے باعث ہرسال 6،7 ہزار ارب روپے ادھار لینا پڑیں گے، یہ سب سے اہم نکتہ ہے جس پر پیپلزپارٹی نے اپنی تجاویز دی ہیں۔
شہباز رانا نے کہا ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد پلڑا صوبوں کی طرف ہوگیا، ان کے پاس اتنا پیسہ آگیا ہے، جس کے بعد پنجاب اور سندھ میں نئے ادارے بنائے جارہے ہیں، تنخواہیں بڑھائی جارہی ہیں،بے تحاشا گاڑیاں لی جارہی ہیں، یہی کچھ وفاقی حکومت میں بھی ہو رہا ہے۔
کے پی کے حکومت کا کہنا ہے این ایف سی میں صوبوں کا کتنا حصہ ہوگا یہ فیصلہ مالیاتی کمیشن نے کرنا ہے مگر اس کے اجلاس سے پہلے ترمیم کی جارہی ہے۔
کامران یوسف نے کہا وفاق نے یہ طے کیا تھا جب زیادہ وسائل صوبوں کو دیں گے تو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں ہرسال ایک فیصد اضافہ کریں گے۔ شہباز رانا نے کہا آج بھی ایف بی آر کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب10.3فیصد ہے،جس میں 15 برسوں میں ایک فیصدبھی اضافہ نہیں ہواجو13سوارب بنتا ہے،جسے 5سے ضرب دی جائے تویہ 65سو ارب بنتا اور سارے مسائل حل ہوجاتے۔
انھوں نے کہا پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے غیرملکی قرضوں کے معاہدوں کی منظوری پارلیمینٹ سے لی جائے، پاکستان کے عوامی قرضے 80.5 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
کامران یوسف نے بتایا پاکستان نے استنبول مذاکرات میں مطالبہ کیا ہے افغان طالبان ،ٹی ٹی پی یا دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے، ترکی اور قطر بھی اپنی تجاویز دیں گے۔