ایچ پی وی ویکسین کے نتائج نہ مل سکے، سندھ حکومت نے پھر بھی ویکسین کیلئے 797 ملین روپے مختص کردیے

کراچی (رپورٹ/ طفیل احمد) شہر قائد سمیت سندھ بھر میں لڑکیوں کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کے لیے لگائی جانے والی حفاظتی HPV ویکسین مہم کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے کے باوجود بھی حکومت سندھ نے اس ویکسین کی خریداری کے لیے  797ملین روپے مختص کردیے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مذکورہ رقم سے تین سال کے لیے ویکسین خریدی جائے گی، اس ویکسین کو 2026ء سے بچوں کے حٖفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (EPI) میں شامل کیا جائے گا۔

کراچی سمیت سندھ میں گزشتہ ماہ ستمبر میں شروع کی گئی HPV ویکسین مہم 15دن کے لیے شروع کی گئی تھی جس میں والدین کی اکثریت نے عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے اور اپنی بیٹیوں کو مذکورہ ویکسین لگوانے سے انکار کردیا تھا۔ کراچی سمیت سندھ بھر کی 9 سے 15 سال کی 4.1 ملین لڑکیوں کو یہ لگانے کا ہدف دیا گیا تھا مگر مہم  اپنا ہدف مکمل نہ کرسکی، سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں میں بھی زیرتعلیم لڑکیوں کی اکثریت نے ویکسین لگوانے سے مکمل انکار کیا یہ ویکسین بین الاقوامی تنظیم  نے فراہم کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس مہم کے نتائج کو بنیاد بناکر ویکسین کو EPI پروگرام میں شامل کرے گی، کراچی میں اس مہم کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔

EPI کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق کراچی کے ضلع کیماڑی میں اس مہم کی شرح صرف 16 فیصد رہی۔ HPV ویکسین مہم کے دوران والدین کے اکثریت نے اسکول جانے والی اپنی بچیوں کو ویکسین لگانے سے انکار کیا جبکہ فکسڈ سینٹر اور دیگر مقامات پر بھی والدین نے اپنی بچیوں کو ویکسین نہیں لگوائی۔

محکمہ صحت کے ماتحت حفاظتی ٹیکہ جات نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین مہم کامیاب رہی لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ویکسین مہم کی ناکامی کی بڑی وجہ محکمہ صحت کی جانب سے تشہری اور آگامی مہم چلائے جانے کے باوجود والدین کی جانب سے کوئی موثر ریسپانس نہیں دیکھنے میں آیا۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے ویکسین کی افادیت کو اجاگرکیا گیا لیکن بیانیہ غیر موثر رہا، ویکسین مخالف عناصر نے سوشل میڈیا پر اس ویکسین کے خلاف منفی مہم چلائی جو خاصی موثر رہی اور سوشل میڈیا پر AI کے ذریعے ایسی ویڈیو بناکر چلائی گئی جس کے وجہ سے والدین میں خوف وہراس پیدا کیا گیا۔

کراچی میں ویکسین مہم کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع کیماڑی میں 9 سے 15 سال عمر تک کی لڑکیوں کی ایک لاکھ 54 ہزار 632  میں سے صرف 16 فیصد لڑکیوں کو حفاظتی ویکسین لگائی گئی جبکہ ضلع شرقی میں 2 لاکھ 91 ہزار 552 لڑکیوں میں سے صرف 37 فیصد لڑکیوں کو حفاظتی ویکسین لگائی گئی۔

اسی طرح ضلع ساؤتھ میں ایک لاکھ 73 ہزار 772 لڑکیوں میں سے صرف 39 فیصد لڑکیوں کو جبکہ ضلع سینٹرل میں 2 لاکھ 84 ہزار 976 لڑکیوں میں سے صرف 42 فیصد لڑکیوں کو ویکسین لگائی گئی۔

یہ اعدادوشمار محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے EPI پروگرام کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جبکہ والدین کی اکثریت نے مہم پر توجہ ہی نہیں دی اور اپنی لڑکیوں کو اسکولوں میں ویکسین لگوانے سے منع کردیا۔

بین الاقوامی تنظیم GAVI نے حکومت پاکستان کو ایک کروڑ 30 لاکھ ویکسین مفت فراہم کی تھی، مہم کے دوران سندھ میں 4.1 ملین لڑکیوں کو حٖفاظتی ویکسین لگانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 15 دن مہم میں مطلوبہ ہدف کو پورا نہیں کیا جاسکا تاہم EPI نے اس ویکسین مہم کے حوالے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں 65 فیصد لڑکیوں کو حفاظتی لگائی گئی ہے۔ HPV خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں نہیں لگی۔

طبی ماہرین کاکہنا ہے کہ ملک میں ڈائریا، ملیریا، ڈینگی سمیت مختلف بیماریوں سے سالانہ لاکھوں افراد مر جاتے ہیں لیکن نہ جانے حکومت پاکستان HPV ویکسین کو ترجیح بنیادوں بچوں کے حفاظتی ٹیکے جات پروگرام میں کیوں شامل کررہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مہم اس لیے چلائی رہی ہے کہ آئندہ سال سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین کو EPI پروگرام میں شامل کیا جائے گا اور اس ویکسین کی خریداری حکومت سندھ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق HPV کو ویکسین کو حکومت سندھ نے بچوں کی حفاظتی ٹیکے پروگرام میں شامل کرنا چاہتی ہے، اس لیے اس ویکسین کی  15 روزہ مہم چلائی گئی تھی جو ایک ٹیسٹ چیک کیا گیا تھا۔

شہری اشرف خان نے بتایا کہ میری بیٹی  دس سال کی ہے، سرکاری اسکول میں پڑھتی ہے۔ میری بیٹی نے مجھ سے فون پر معلوم کیا کہ اسکول میں ویکسین لگانے والے آئے ہیں ویکسین لگوانے کے لئے زور دیا جارہا ہے، بیشتر لڑکیوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا، وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ یہ ویکسین کس مرض سے بچاؤ کی ہوتی ہے، بیٹی نے ویکسین نہ لگوانے پر جب اصرار کیا تومیں نے بھی منع کردیا، بیٹی نے بتایا کہ اسکولوں میں سیکروں لڑکیوں نے ویکسین نہیں لگوائی جبکہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے دباؤ تھا کہ ویکسین لگوائی جائے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے عزیز آباد میں اس ویکسین مہم کے دوران کوئی ٹیم موجود نہیں تھی۔

اسی طرح بنارس کے ایک رہائشی خوشاب خٹک کا تعلق پشاور سے ہے انہوں نے بتایا کہ میں 15 ستمبر کو پشاور سے کراچی پہنچا، کے پی کے میں یہ مہم نہیں چلائی گئی، اس لیے میں بھی اس مہم سے بے خبر تھا لیکن جب میری بیٹی اسکول گئی تو اسکول انتظامیہ نے کہا کہ اگلے دن اسکول آنے پر زور دیا کیونکہ اسکول میں سب بچیوں کو ویکسین لگائی جائے گی، میری بیٹی نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ یہ کون سی ویکسین ہے تو لاعلمی کا اظہار کیا اور میں نے اپنی بیٹی کو ویکسین نہ لگوانے کا مشورہ دیا۔ بیٹی نے بتایا کہ اسکول میں سب لڑکیوں کو ویکسین لگوانے پر زور دیا جارہا ہے لیکن لڑکیوں کی بڑی تعداد نے ویکسین سے انکاری کردیا ہے۔

خوشاب خٹک نے بتایا کہ HPV ویکسین صرف کراچی اور پنجاب میں کیوں لگائی جارہی ہے؟ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یہ ویکسین مہم شروع نہیں کی گئی، پاکستان میں ڈائریا، ملیریا، ڈینگی اور دیگر امراض سے سالانہ ہزاروں افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں لیکن حکومت پاکستان ان امراض پر قابو پانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کرتی لیکن HPV ویکسین کو لازمی لگوانے کے لیے اسکول جانے والی لڑکیوں پر کیوں دباؤ ڈالا گیا، اس میں حکومت کی بدنیتی نظر آتی ہے دیگر امراض کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف HPV ویکسین پر زور کیوں دیا جارہا ہے؟

بچوں کے حفاظتی ٹیکہ پروگرام (ای پی آئی) کے پروچیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر راج کمار نے بتایا کہ 3 سال کی ویکسین کے لیے حکومت سندھ نے 797 ملین رکھے ہیں، اس رقم سے ویکسین کی خریداری کی جائے گی اور ہر سال 9 سال سے 15 سال عمر تک کی لڑکیوں کو ہرسال 7 لاکھ ویکسین لگائی جائے گی، مختص کی جانے والی رقم سے 3  سال کی ویکسین خریدی جائے گی۔

ڈاکٹر راج کمار کے مطابق ویکسین کی خریداری وفاقی حکومت کرے گی لیکن اس ویکسین کی خریداری میں سندھ حکومت کے ذمہ 797  ملین روپے آئے ہیں جو حکومت سندھ وفاق کو ادا کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب والدین اپنی بچیوں لگوانے پر تیار نہیں تو حکومت سندھ ویکسین کے خریداری کے لیے 797  ملین کیوں خرچ کررہی ہے؟

Similar Posts