گو یہ پیکیج کئی ٹارگٹس کے حصول کے ساتھ مشروط ہے لیکن دولت کے ارتکاز کی اشتہاء کے سلسلے میں اشرافیہ کے مزاج کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔
گزشتہ پچاس سالوں کے دوران دنیا میں عدم مساوات اتنی بڑھ گئی ہے کہ اسے اب موسمیاتی تبدیلی جتنا بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف سٹگلٹز کی سربراہی میں ماہرین کی ایک کمیٹی نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کے صدر کی درخواست پر G20 کے لیے ایک اہم رپورٹ تیار کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق معاشی عدم مساوات کا پھیلاؤ اور شدت اس قدر وسیع ہے کہ اس سے دنیا کے بیشتر ممالک اور اربوں لوگ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی طرح شدید متاثر ہیں۔ ان کے خیال میں اس منظم معاشی عدم مساوات کی سنگینی کے ادراک اور اعتراف کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر مربوط اور منظم طور پر اسکا مقابلہ کیا جا سکے۔
رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار خوفناک اور قابل غور ہیں۔ سال 2000 سے اب تک پیدا ہونے والی نئی دولت کا 41 فیصد صرف دنیا کے امیر ترین 1 فیصد لوگوں کی جیبوں میں چلا گیا۔
اس عرصے چند ہزار ارب پتیوں کی دولت میں 1.3 ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہوا، جب کہ غریب ترین 50 فیصد آبادی کی دولت میں بمشکل 585 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ یہ اعداد و شمار واضح طور پر دنیا بھر میں جاری معاشی نظام کا ثمر ہیں جو اشرافیہ کے مفادات کی آبیاری کا پروردہ نظام ہے۔
ماہرین کے مطابق مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ دنیا کے 83 فیصد ممالک، جن میں 90 فیصد عالمی آبادی رہتی ہے، ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق ’’انتہائی عدم مساوات‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
ماہرین نے ایک اور حیرت انگیز خطرناک ربط کی نشان دہی کی ہے کہ جن ممالک میں زیادہ عدم مساوات ہے، وہاں جمہوریت کے زوال کا امکان سات گنا زیادہ ہے۔ جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے تو طاقت بھی ان ہی ہاتھوں میں چلی جاتی ہے، اور یوں جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے۔
رپورٹ نے بتایا کہ 2020 کے بعد سے حالات مزید بگڑے ہیں۔ کووڈ19، یوکرین کی جنگ، اور 2025 کے آغاز سے تجارتی تنازعات نے مل کر ایک ’’کامل طوفان‘‘ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
آج دنیا بھر میں ہر چوتھا شخص ایک وقت کا فاقہ کرنے پر مجبور ہے، جب کہ دوسری طرف ارب پتیوں کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک اور خوفناک پیشین گوئی یہ کی گئی ہے کہ اگلے دس سالوں میں 70 کھرب ڈالر کی دولت وراثت کے طور پر منتقل ہوگی، جو معاشرتی انصاف اور مواقع کی برابری کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
نیو لبرل ماہرین معیشت نے ہمیں ایک عرصے سے اس غلط فہمی کو یقین کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ کر رکھا ہے کہ نجی شعبہ پبلک سیکٹر سے ہمیشہ بہتر کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔
مغرب کی یونیورسٹیز، ورلڈ بینک اور ائی ایم ایف سال ہا سال سے یہی نسخہ استعمال کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نجکاری کو ایک بنیادی معاشی وصف کے طور پر مانیں اور عمل کریں۔
اس رپورٹ نے اس غلط فہمی کو مکمل رد کیا ہے کہ نجی شعبہ ہمیشہ سرکاری شعبے سے بہتر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انرجی، پانی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں نجکاری نے کارپوریٹ منافع تو خوب بڑھائے لیکن عام لوگوں تک ان خدمات کی رسائی مہنگی اور محدود ہو گئی۔
مالیاتی منڈیوں کی deregulation نے بار بار معاشی بحران پیدا کیے اور مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤ کے تکلیف دہ عمل کو ایک معمول بنا کر رکھ دیا ہے جن کا سب سے زیادہ نقصان غریبوں کو اٹھانا پڑا۔۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ون سائز فٹ آل کا لگا بندھا پالیسی فریم ورک ترقی پذیر ملکوں پر زبردستی نافذ کروایا گیا جس کے تحت پبلک سروسز پر اٹھنے والے اخراجات کو کفایت شعاری کے نام پر مسلسل کمی کو شعار بنا لیا گیا۔یوں اس یکطرفہ بجٹ بند ’’کفایت شعاری‘‘ کی پالیسیوں نے عوام کی بنیادی ضروریات تک رسائی مزید مشکل بنا دی۔
ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کا غلغلہ اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک دو دھاری تلوار ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ فوائد کے ساتھ ساتھ عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتی ہیں کیونکہ جو لوگ ان تک رسائی رکھتے ہیں، وہ آگے نکل جاتے ہیں اور باقی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے؟ ماہرین کی اس کمیٹی نے کئی عملی تجاویز پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں۔
1 بین الاقوامی سطح پر، کم سے کم کارپوریٹ ٹیکس پر معاہدہ ضروری ہے تاکہ کمپنیاں ایک ملک سے دوسرے ملک میں بھاگ کر ٹیکس سے نہ بچ سکیں۔ 2 دانشورانہ املاک یعنی Intellectual Property Rights کے قوانین میں اصلاح بہت ضروری ہے خاص طور پر وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی سے معاملات کے حوالے سے۔
3 ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انتہائی امیروں کی دولت اور بے محابہ منافعوں پر پر منصفانہ ٹیکس لگنا چاہیے۔ 4 بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی گورننس میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ وہ امیر ممالک کی مفادات کی نگہبانی کے بجائے ’’آج‘‘ کی عالمی معیشت کی بہتر نمایندگی کر سکیں۔
مختصر یہ کہ ایک بہتر سماج اور معاشی نظام کے لیے قومی سطح پر مزدوروں کے حقوق کی حفاظت، کارپوریٹ اجارہ داری میں کمی، بڑے سرمائے کے منافع پر ٹیکس، عوامی خدمات میں سرمایہ کاری، اور زیادہ ترقی پسند ٹیکس پالیسیاں ضروری ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کے بڑھتے قرضوں کے لیے قرضوں کی تنظیم نو اور کچھ حد تک معاف کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم تجویز ایک بین الاقوامی پینل کی تشکیل ہے جو IPCC کی طرح کام کرے۔
جس طرح IPCC موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرتا اور حکومتوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے، اسی طرح یہ پینل عدم مساوات کے بارے میں کام کرے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی طرح بے قابو عدم مساوات بھی عالمی برادری کے لیے بڑا خطرہ ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں بہتر معلومات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
یہ رپورٹ پاکستان کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چند خاندانوں کے پاس اربوں کی دولت ہے جب کہ لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ زرعی آمدن پر ٹیکس نہیں، بڑے کاروباریوں کو رعایتیں، اور عام آدمی کے لیے ہر چیز پر ٹیکس !
یہ سب اسی عدم مساوات کی مثالیں ہیں۔اس رپورٹ کی تجاویز پاکستان کے لیے بھی قابل غور ہیں کہ جس صنم کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں اس کا ایک شاہکار یہ بے قابو معاشی ناہمواری بھی ہے جو ہم ایسے 25 کروڑ ابادی ہے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔