یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ اس آرٹیکل کی کونسی شق میں،کونسی ترمیم کی جائے گی یا کیا نئی ترمیم متعارف کی جائے گی؟ اس لیے اس پرکوئی تفصیلی بحث نہیں کی جاسکتی۔ جو ترمیم 243 میں کی جارہی ہے، وہ مسودہ ہمارے سامنے ابھی تک آیا نہیں ہے، صرف قیاس آرائیاں اور مفروضے ہیں جن پر بحث کرنا قبل از وقت ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ آئین میں ترامیم کا پوری سیاست، سماج، عدلیہ اور تمام اداروں پر اثر پڑتا ہے، وہ چاہے منفی ہو یا مثبت۔ ہماری 78 سال کی تاریخ اور آئینی بحران ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
ہم چھبیس سال تک ملک کو آئین نہ دے سکے اور وہ جو دو آئین ہم نے دیے ایک 1956 اور1962دونوں آئین کے مروج تقاضوں پر پورے نہیں اترتے تھے اور جب اس بحران سے یہ ملک دولخت ہوا تو تب جا کے ہم نے ہوش کے ناخن لیے اور اس ملک کو ایک جامع متفقہ اور بین الاقوامی آئین کے تقاضاؤں کو پورا کرتا ہوا ایک آئین دیا۔
لیکن پھر ہم اس آئین پرکھڑے نہ ہوسکے، ملک کے اندر دو آمریتیں آئیں اور باقی بچی جمہوریت، یعنی جو جمہوریتیں آئیں وہ کمزور تھیں اور بلآخر اس آئینی بحران سے یا یوں کہیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ایک انتہائی کمزور جمہوریت نے جنم لیا جس کو ہم ہائبرڈ جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔
پاکستان کی جمہوری قوتیں جو آمریتوں کو روکنے کا دعویٰ کرتی تھیں یا ہیں، ہر سیاسی بحران میں اپنی بقاء کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلب گار ہوگئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے، اس ملک میں شفاف انتخابات ممکن نہیں رہے، پاکستان میں ایک ہی انتخابات کو شفاف کہا جاتا ہے ، وہ تھے 1970 کے جس کے نتائج کو ہم نے قبول نہیں کیا اور باقی تمام نتائج کسی نہ کسی حوالے سے اختلافی رہے۔
عام انتخابات کس طرح ہوتے ہیں، کون کیسے کامیاب ہوتا ہے، اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ہماری جمہوری قوتوں نے بھی وہی راستہ اپنایا، جو وقت کی مناسبت سے انھیں سوٹ کرتا ہے۔ اب یہ اسمبلی جس میں جو لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں،کیا وہ بھی اسی انداز سے آئے ہیں جس طرح ہوا کا رخ بتاتا ہے۔
آئین میں ترامیم کرنا تکراری نہیں ہوتا، سوال یہ ہے کہ آئین میں کونسی ترامیم کی جا رہی ہیں، اگر ترامیم خود آئین کو بہترکرتی ہیں جس میں انسانی حقوق اور واضح ہوتے ہیں جس میں صوبائی خود مختاری اور مضبوط ہوتی ہے جس میں عدلیہ اور آزاد ہوتی ہے، جس میں جمہوریت اور پروان چڑھتی ہے تو ایسا عمل خوش آیند ہے۔
اس کے برعکس اگر انسانی حقوق چھینے جاتے ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائے جاتے ہیں۔ صوبائی خود مختاری یا عدلیہ کی آزادی چھینی جاتی ہے تو ایسی ترامیم نہ صرف آئین میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں بلکہ سماجی و سیاسی اعتبار سے ملک کو پیچھے کو دھکیلتی ہیں، جس کے اثرات براہ راست ہماری معیشت پر پڑتے ہیں۔
ہماری بین الاقوامی ساخت ہمارے سماج کو کمزورکرتی ہیں اور خصوصاً نوجوانوں کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے جس سے ان کی صلاحیتیں کمزور ہوتی ہیں اور پھر اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ہم اپنی مجموعی پیداوار کو نہیں بڑھا سکتے۔
پاکستان میں ایک مخصوص شرفاء کا طبقہ ہے جن کی جڑیں جاگیرداری، گماشتہ سرمایہ داری، اسمگلنگ، زمینوں پر قبضے ، منشیات کا کاروبارکرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ 78 سال کی اس تاریخ میں ہم ابھی تک ملک کو مڈل کلاس سیاست اور قیادت دینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور جو اگر مڈل کلاس قیادت و سیاست سامنے آئی بھی، تو وہ بھی شرفا سے گٹھ جوڑ بنا کے بیٹھ گئی۔
آئین اپنا تحفظ خود نہیں کرسکتا، اس کا تحفظ ایک مضبوط، بھرپور سماج کرتا ہے اور اگر سماج کی وقت کے ساتھ ساتھ بھرپور انداز میں نشونما نہیں ہوئی تو وہ جمہوریت کو نقصان پہنچاتا ہے، آج بھی پاکستان میں ساٹھ فیصد قومی اسمبلی میں پہنچنے والے وہی ہیں جن کی جدی پشتی سیٹیں ملی ہیں۔
ان ساٹھ فیصد علاقوں کے لوگ جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں، چوہدریوں، اور قبائلی سرداروں کے پاس غلام بنے ہوئے ہیں اور ہم نے بحیثیت ریاست ایسا ہونے دیا ہے تاکہ اقتدار پر اجارہ داری قائم رہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے، ہماری اس سوچ نے پاکستان کو معاشی طور پرکتنا کمزورکردیا ہے کہ آج وہ معاشی اعتبار سے اپنی بقا کے لیے جنگ لڑرہا ہے اور ہم یہ سمجھ نہ سکے کہ ہم جس طریقے سے اس ملک کو چلا رہے ہیں، وہ ایک ایسے بھنور میں پھنس جائے گا جہاں سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
ہم نے پاکستان کے اس سیاسی بحران سے معیشت پر پڑتے اثرات کوکبھی نہیں جانا۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ ہمیں امریکا سے امداد ملتی رہے گی اور ہم فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے ان کے ایجنڈے پرکام کرتے رہیں گے۔
ان تمام باتوں کے تانے بانے ہمارے آئین کے ارتقاء اس کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، آئین سماج اور سیاست یہ تینوں ستون ہیں جس پر یہ پاکستان کھڑا ہے اور یہ تینوں ستون، ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں اور ان تینوں ستونوں پر اگرکسی ایک ستون کمزور ہوتا ہے تو وہ دوسرے ستون کو کمزورکرتا ہے۔
پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پر جو بھی فرسودہ طبقات ہیں جیسا کہ جاگیردار، وڈیرا، سردار، چوہدری، سرمایہ دار، پیر، منشیات کا کاروبار، اسمگلنگ، مذہب کی اجارہ داری کرتے ہوئے ان تمام غیر پیداواری طبقات میں آتے ہیں۔
ہمیں مضبوط، معیشت، مضبوط آئین اور جمہوریت رواداری سے مل سکتی ہے، لٰہذا آئین پر آئے دن یلغارکرنا، اسے بگاڑکے رکھ دینا، خود اس آئین کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔