تیسری جنگ عظیم کا آغاز؟ مشرق وسطیٰ کے بعد برصغیر کا نمبر!

0 minutes, 0 seconds Read

افغانستان میں امریکا کا اربوں ڈالر کا قابل استعمال اسلحہ چھوڑنا، روس، یوکرین جنگ کو بڑھاوا دینا، امریکا کا چین پر معاشی دباؤ بڑھانا اور معاشی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے یورپین یونین، برطانیہ، کینیڈا، افریقا اور بھارت کو گھٹنوں کے بل جھکانا، پاکستان کے کئی علاقوں میں شورش میں اضافہ، بھارت کے ذریعے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا۔ اور اس سے پہلے لبنان، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان کو تاراج کرنا اور ساتویں یعنی ایران کو تباہ کرنے کی تیاری۔ کیا یہ ساری لڑائیاں اور تنازعات کسی سازش کا حصہ ہیں یا الگ الگ واقعات ہیں؟

مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر نظر ڈالنے سے پہلے برصغیر اور اطراف کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد لاکھوں بندوقیں اور دیگر بھاری اسلحہ و ساز و سامان طالبان کے ہاتھ لگا، اور ایک رپورٹ کے مطابق بلیک مارکیٹ میں 5 لاکھ کے قریب بندوقیں فروخت بھی کردی گئیں، یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا شوشا چھوڑا گیا، مقصد روس کو جنگ پر اکسانا تھا، روس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور چڑھ دوڑا۔ روسی اقدام سے یورپین یونین ممالک پہلے ہی پریشان تھے، امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ نے یورپین یونین سمیت دیگر پر بھاری ٹیرف عائد کردیا، بھارت بھی ٹیرف کی زد میں آچکا ہے اور بھارت مجبور ہے کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ناصرف ٹرمپ کی پالیسیوں کو آگے بڑھائے بلکہ ایسے اقدامات کا حصہ بنے جو خطے میں عدم استحکام کو جنم دیں۔

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، اٹاری چیک پوسٹ بند، پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم

ماہرین کے مطابق چین دوسری عالمی قوت کے درجے پر فائز ہوچکا ہے، سوویت یونین کی تباہی کے بعد دنیا یک قطبی ہوچکی تھی لیکن اب چین نے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ہے اور دنیا ایک بار پھر دو قطبی ہورہی ہے۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا میں چین کا اثر رسوخ قائم ہوچکا ہے۔ یورپین یونین بھی چینی اثرات قبول کر رہی ہے۔

چین اور پاکستان میں بہت مضبوط تعلقات قائم ہیں اور خطے میں دونوں ملکوں کی فوجی قوت نمایاں ہے، ساتھ ہی دونوں جوہری طاقت بھی ہیں، بنگلادیش اور پاکستان میں قربت بڑھ رہی ہے، روس، چین تعلقات اور پاک روس تعلقات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، افغانستان کی عبوری حکومت پر بھی روس اور چین کے اثرات نمایاں ہیں تو لے دے کر خطے میں بھارت ہی ایک نمایاں طاقت بچتا ہے جسے امریکا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا تھا۔

اسی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے دوردراز پہاڑی علاقے پہلگام میں مبینہ حملے کی طرف چلتے ہیں، یہ حملہ سہ پہر 3 بجے ہوا اور اس کے صرف 5 منٹ بعد بھارت کے ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی را سے وابستہ سوشل اکاؤنٹس سے پاکستان پر براہ راست الزام عائد کردیا گیا، اس کارروائی کو مذہب کی بنیاد پر حملہ قرار دیا گیا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی بھارتی سیاسی رہنماؤں اور حکمراں بی جے پی کے سوشل اکاؤنٹس سے تقریباً ایک جیسے پیغامات گردش کرنے لگے، یعنی خون کا بدلا خون، پاکستان پر حملہ کردو، وغیرہ وغیرہ۔ حالاں کہ اس وقت تک اموات کی تعداد تک کی تصدیق نہ ہوسکی تھی۔ اسی طرح بھارتی میڈیا پر میجر جنرل جی ڈی بخشی ریٹائرڈ اور ان جیسے دیگر بھارتی فوجی افسران چیخ چیخ کر پاکستان پر حملے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بہت منظم طریقے سے بھارتی شہروں میں احتجاج شروع کرا دیے گئے۔ اور سب کا مطالبہ ایک ہی تھا کہ بس اب حملے سے کم کچھ نہیں۔ یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ حملہ آوروں نے مذہب پوچھنے کے بعد سیاحوں کو گولیاں ماریں، حملہ آور نے ایک خاتون سے یہ بھی کہا کہ جاؤ مودی کو بتا دو۔

بھارتی فالس فلیگ آپریشنز کی طویل فہرست

بھارتی میڈیا نے حماس کو انتہاپسند دہشت گرد گروہ قرار دینا شروع کردیا ہے اور یہ بھی کہ کشمیری جنگ جوؤں کو حماس کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے اجتماع سے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے خطاب کو بھی بھارتی میڈیا غلط انداز میں پیش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، جن کی سوچ اور فکر و نظر بالکل الگ ہے۔ پاکستان کی بنیاد بھی یہی سوچ ہے، اور اگر اب جنرل عاصم منیر نے یہ کہا ہے تو کون سی نئی بات کی ہے۔

اب آتے ہیں بھارت کے اصل مقاصد کی طرف۔ اول: حملہ مذہبی انتہاپسندی کا شاخسانہ قرار دینا اور دوم: سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا۔

سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ بھارت ان الزامات سے دو چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے ایک تو یہ کہ مذہب کی بنیاد پر حملے سے عالمی برادری کی پاکستان کے لیے حمایت کم ہوجائے اور دوسرے پاکستان کا پانی بند کرنے کی صورت میں چین کھل کر پاکستان کے ساتھ آکھڑا ہو، یعنی چین اپنے ہاں سے نکل کر بھارت جانے والے دریاؤں کے پانی کو روکنے کی کوشش کرے یا ایسا کوئی اعلان کرے۔

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ توڑا تو کیا اس کو جواز بنا کر چین بھارت کا پانی روک سکتا ہے؟

بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے کابینہ کمیٹی برائے سلامتی (سی سی ایس) کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دی اور کئی اقدامات کے ساتھ پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار ہوجائے۔ یعنی بھارت نے سرکاری طور پر پاکستان پر مذہبی دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کردیا ہے۔

روس، یوکرین تنازع اور مشرق وسطیٰ کی بڑی تباہی کے بعد اب اس خطے میں تنازعات کو بڑھاوا دیا جارہا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت کا کردار تو کھل کر سامنے آگیا ہے، یعنی وہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ روس، چین، پاکستان اور بنگلا دیش ایک ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے مضبوط حصار مہیا کرسکتے ہیں، البتہ برطانیہ، یورپین یونین اور افغانستان کس طرف جاتے ہیں، یہ بھی جلد ہی سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے۔

Similar Posts