کینیڈا کے جنگلات میں جون 2023 میں لگنے والی شدید آگ کا دھواں نیویارک شہر تک جا پہنچا، جس نے آسمان کو نارنجی اور دھند آلود بنا دیا۔ اس واقعے سے نیویارک کا درجہ حرارت تقریباً 3 ڈگری سینٹی گریڈ کم ہو گیا، جو بظاہر خوش آئند لگتا ہے۔ مگر ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ یہ کمی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
رتگرز یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق یہ دھواں ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے نیویارک اور نیوجرسی کے علاقوں میں پھیل گیا۔ اس میں موجود باریک بھورے رنگ کے کاربن ذرات سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روکتے ہیں، جس سے گرمی میں کمی تو آتی ہے، لیکن ساتھ ہی ہوا کی قدرتی گردش بھی رک جاتی ہے۔
آگ سے بچنے والا شخص امدادی کارکنوں کی لڑائی میں پھنس گیا، آکسیجن سے محروم
تحقیق میں بتایا گیا کہ جب ہوا رکی، تو زہریلے ذرات زمین کے قریب ہی پھنس گئے، جس سے سانس کی بیماریاں بڑھ گئیں۔ اس دوران نیویارک میں فضا میں موجود خطرناک ذرات (PM2.5) کی مقدار امریکی ماحولیاتی ادارے کی حد سے تین گنا اور عالمی ادارہ صحت کی سفارشات سے آٹھ گنا زیادہ تھی۔
ایک اور تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ متاثرہ افراد کے پھیپھڑوں میں تقریباً 9.2 ملی گرام دھوئیں کے ذرات جمع ہوئے، جس سے ان کے مدافعتی خلیے (جو انفیکشن سے لڑتے ہیں) کی کارکردگی 50 فیصد تک کم ہو گئی۔
طبی اعداد و شمار کے مطابق ان دنوں کے دوران دمہ کے مریضوں کی ایمرجنسی میں آمد 44 سے 82 فیصد تک بڑھ گئی۔
امریکا میں لگی بھیانک آگ کی پیشگوئی پہلے ہی کردی گئی تھی؟
تحقیق کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر فلپ ڈیماکریتو کا کہنا ہے کہ یہ پہلا واقعہ ضرور تھا، لیکن اگر موسمیاتی تبدیلی جاری رہی، تو شمال مشرقی امریکہ میں اس طرح کے واقعات مزید عام ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جنگلاتی آگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نہ صرف موسمی تبدیلیوں کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ شہروں میں رہنے والے لوگوں کی صحت کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر ماحولیاتی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔