زندہ رہنا سیکھئے! (دوسرا اور آخری حصہ)

گزشتہ کالم کے اہم نکات‘ توجہ کے لیے پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں۔ معمولی سی ورزش‘ معتدل غذا اور وقت کے بہتر استعمال کو ذہن میں رکھیئے۔ تھوڑی دیر کے لیے مکمل اکیلے خاموشی سے بیٹھ جایئے ۔ سوچیے کہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار لاتی ہیں۔

اس کے بالکل متضاد‘ وہ کون سے عناصر ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ اب ان تمام کی فہرست بنایئے ۔ یہ لسٹ صرف اور صرف آپ کی ذات کے لیے ہے۔ اسے کسی کو بھی نہ دکھایئے۔ جو معمولات آزار کا باعث بنتے ہیں، ان پر لکیر لگایئے اور ساتھ ہی انھیں زندگی سے نکال دیجیے ۔ مت سوچیے کہ یہ کتنے قربت کے واسطے ہیں۔ ان میں تلخ انسان اور مشکل رشتے دونوں شامل ہیں۔ بالکل گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ہی ترش عناصر‘ راستے سے ہٹ جائیں گے پچاس فیصد مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔

ہاں رشتوں کو ترک کرتے وقت‘ حد درجہ عزت و احترام کا دامن پکڑیے۔ آخری ملاقات ‘ مسکراہٹ پر ختم ہونی چاہیے۔نوٹ فرمائیے گا کہ فوراً ذہن نہیں بلکہ روح ہلکی ہو جائے گی۔ اب ذرا سکے کے دوسرے رخ پر غور کیجیے۔ خوشی فراہم کرنے والے معمولات کو توانا فرمایئے۔ اگر ایک دوست سے مل کر بے ساختہ قہقہے لگاتے تھے اور وہ آپ سے فاصلے یا کسی بھی اور وجہ سے ذرا سا دور ہو گیا ہے تو اسے خود جا کر ملیے۔ خوب ہنسیے ۔ اس سے کہیں کہ آؤ‘ کہیں باہر جا کر کسی کیفے میں کافی پیتے ہیں۔ یا کسی تھڑے پر براجمان ہو کر‘ چوکڑی بھر کر‘ عام سی پیالیوں میں شڑ شڑ کر کے چائے پیتے ہیں۔ دو چار گھنٹے‘ اپنے دوست کے ساتھ گزار کرگھر واپس آئیں گے۔ تو اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ مگر یہ تو صرف اور صرف ابتداء ہے۔

یاد رکھیے! کہ زندگی‘ آپ کی سب سے بڑی جائیداد ہے۔ اسے ضایع مت ہونے دیں۔اکثر لوگ جوانی یا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قنوطیت پسند ہو جاتے ہیں۔ بہترین معاملے میں بھی منفی رنگ نکالنا ان کے لیے معمولی سا کام ہے۔ ان سے تو خیر اجتناب ہی فرمائیے۔ یاد رکھیے زندگی کا ریموٹ کنٹرول آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر کسی اور کو دے رکھا ہے تو فوراً واپس لیجیے۔ دن اور رات‘ اپنی سوچ کے مطابق صرف کریں۔ کوئی بڑی بات نہیں کر رہا۔ بالکل سادہ سی باتیں ہیں جو آپ کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں گی۔ گھر کے نزدیک کسی میدان میں وقت گزاریے۔ درختوں ‘ پودوں‘ پتوں اورپرندوں کے رنگوں پر غور فرمائیے۔ ہوا کے جھونکوں کی سرسراہٹ کو اپنے اندر سمو لیجیے۔ خود کو اس کیفیت کے حوالے کر دیجیے۔ پندرہ بیس منٹ کے قلیل وقت میں روح ہری ہو جائے گی۔

اب ذرا بیرونی معاملات پر بھی نظر دوڑایئے۔ ہر گلی‘ محلہ یا پوش علاقے میں ایسے کئی ضعیف افراد مل جائیں گے جو شدید تنہائی کا شکار ہیں۔ ان سے گفتگو کرنی شروع کردیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شروع میں قدرے حیران ہوں۔ پر پیچھے مت ہٹیے۔ میل جول جاری رکھیں۔ اگر بازار جا رہے ہیں تو ان سے پوچھ لیں کہ کیا کوئی چیز تو نہیں منگوانی؟ دیکھیے گا کہ تھوڑے سے عرصے میں وہ آپ کو دن میں تلاش کر کے ملنا شروع کر دیں گے۔ یہ تو میں ذرا پختہ عمر کے مرد اور خواتین کی بات کر رہا ہوں۔ اگر اوائل عمری میں ہیں تو ایک نیا کام کریں۔ اکثر گھروں میں مائیں کھانا بناتی ہیں۔ ویسے ماں سے بہتر کوئی کھانا بنا ہی نہیں سکتا۔اس لیے کہ ان کی بنائی ہوئی اشیاء میں محبت اور خلوص کی آمیزش ہوتی ہے جو بازار سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

ایک دن اسکول یا کالج یا دفتر سے واپس آ کر ‘ باورچی خانے میں کھانا بنانے میں والدہ کی مدد کرنی شروع کر دیں۔ سبزی کاٹنے کی کوشش کریں۔ اگر پوری زندگی کچن میں نہیں گئے تو پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ مصالوں کے ڈبوں سے مصالحہ جات نکالنے میں ماں کی مدد کریں۔ پھر ڈبے ترتیب سے واپس رکھیں۔ ہفتے میں کم از کم دو چار بار یہ کرنے کی ضرورہمت کریں، گھر کا ماحول بدل جائے گا۔ دعائیں ملنی تو خیر لازم ہیں۔ چہروں پر خوشی کا رنگ بکھر جائے گا۔ اور جناب‘ شخصیت میں مسرت کا وہ نور بکھرے گا کہ اندر سے خوشبودار ہو جائیں گے۔

والدین‘ اپنے بچوں سے محبت تو کرتے ہیں مگر ان کو ہر دم ٹوکتے بھی رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ‘ والد یا والدہ کو علم نہیں ہوتا کہ اس سے بچوں کے ذہن پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ ان میں سے متعدد بچے تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہ پتہ نہیں ان کی شخصیت میں کیا کمی ہے کہ عزیز ترین رشتے بھی بس خامیاں ہی نکالتے رہتے ہیں۔ اپنے بچوں پر نکتہ چینی کرنا چھوڑ دیں۔ ان کو ہر بات پر بار بار نہ ٹوکیں۔ اگر کسی بچے یا بچی کے امتحان کا نتیجہ ‘ توقع پر پورا نہیں اترا۔ تو اپنے غصے کو باہر نہ نکلنے دیں۔

صرف یہ کہیں کہ آپ کو ان سے ہر حال میں محبت ہے۔ بس آنے والے امتحان میں تھوڑی اور محنت کر لوں۔ حیران رہ جائیں گے۔ جب آپ کی اولاد‘ اگلے امتحان کے لیے خود بخود اتنی شدید محنت شروع کر دے گی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ بچوں کا حوصلہ بڑھائیے۔ باقی خدا پر چھوڑ دیجیے۔ اس عمل سے آپ کی اپنی شخصیت پر جتنے مثبت اثرات پڑیں گے۔ اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ذی روح کو حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا وطیرہ بنا لیجیے کہ دوسروں کا حوصلہ بن جائیں۔ مثبت جملے کہنے سے آپ کے اندر انقلابی تبدیلی آئے گی جو کہ بہتر ہو گی۔

پاکستان کے تقریباً اسی لاکھ سے ایک کروڑ لوگ‘ ملک سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کو چھوڑنا قطعاً آسان بات نہیں ہے۔ مصروفیت اور کئی مزید وجوہات کی بنا پر باہمی رابطہ کمزور پڑتا جاتا ہے۔ اگر آپ ‘ صرف ایک فون کر کے دوسروں کی خیریت معلوم کرنا شروع کر دیں۔ اس کو اپنی عادت میں شامل کر لیں۔ دو تین دن یا کسی بھی متعین وقت سے ‘ فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کریں تو ہر چیز بدل جائے گی۔ خوشی کسی پیڑ پر نہیں اگتی۔ کسی درخت کے ساتھ بھی لٹکی نہیں ہوتی ۔ یہ تو آپ کے اردگرد ہر وقت موجود ہوتی ہے۔

بس کوشش کر کے اسے واپس لانا ہے۔ پھر اپنی شخصیت کے پنجرے میں اسے قید کر لینا ہے۔ اس واپسی کا کوئی ایک لگا بندھا کلیہ یا طریقہ نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایک مستند اصول موجود نہیں ہے۔ جس سے آپ خوشی کی وادی کے دروازے کو عبور کر کے‘ پر سکون مقام پر پہنچ جائیں۔ دراصل یہ تو تلاش کرنے سے فوراً خود بخود‘ دروازے پر دستک دینی شروع کر دے گی۔جس کالونی میں رہتے ہوں۔ ہوسکتا ہے‘ وہاں ہمسائیگی کا کوئی رواج نہ ہو۔ پر روایت کو توڑیے ۔ ایک دن کھانا بنا کر ‘ ساتھ والوں کے گھر بھجوا دیجیے۔ ان کی طرف سے شکریہ کا پیغام ضرور آئے گا۔ تھوڑے دن بعد‘ حیران رہ جائیں گے کہ وہ بھی قاب میں ‘ آپ کی طرف‘ سویٹ ڈش یا کھانا ضرور بھجوائیں گے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ اپنے نزدیک رہنے والوں کے معمولات میں دخل دیں مگر بہتر طرز عمل سے دلوں میں آویزہ دیواروں کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس کو بھی رہنے دیجیے۔ آپ گاڑی میں جا رہے ہیں۔

سڑک پر اینٹیں پڑی نظر آ رہی ہیں۔ گاڑی سے اتریے۔ اینٹوں کو اٹھا کر راہ گزر سے دور رکھ دیجیے۔ دل کے اندر ایک مثبت جذبہ آئے گا۔ ایک اطمینان حاصل ہو گا جو اجنبی سا ہو گا۔ بہتر محسوس کریں گے، عام لوگوں کی مدد کرنا شروع کر دیں۔ بلا کسی صلہ کے توقع کے‘ کسی بزرگ یا بچے کو ٹریفک سے اٹی ہوئی شاہراہ سہارا دے کر پار کروا دیں۔ یہ فعل شاید معمولی سا لگے۔ مگر یہ غیر معمولی اچھائی ہے۔ گھر میں وہ تمام کپڑے‘ جو آپ نہیں پہنتے ۔

انھیں ڈرائی کلین کروا لیں یا گھر پر ہی صاف کروائیں اور جہاں بھی سمجھتے ہیں کہ اس جگہ پر لوگوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے۔ وہاں خاموشی سے تقسیم کر آئیں۔ کوئی تشہیر نہ کریں۔ یہ چھوٹا سا عمل زندگی میں خاموش بہار لے آئے گا، اپنے اوپر اعتماد کیجیے۔ خود اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کسی قسم کے مصنوعی پن یا بناوٹ کے بغیر‘ اپنے اردگرد کی خوشیوں کو تلاش کر کے اپنی روح کے اندر موجود لاکر میں ڈالتے جائیں۔ تھوڑے عرصے بعد ‘ اندازہ ہو گا کہ آپ نے اب دوبارہ زندہ رہنا شروع کر دیا ہے!یا شاید زندہ ہی اب ہوئے ہیں۔ پہلے صرف سانس لینے کی مشق کر رہے تھے۔

Similar Posts