لکھنے کے لیے الفاظ کی ڈھنڈیا

0 minutes, 0 seconds Read

گزشتہ سے پیوستہ: (حضور!جان کی امان۔۔۔۔)

سوچ رہا ہوں کہ ایسے الفاظ کہاں سے لاؤں کہ اپنی بات کہہ ڈالوں، تنقید کرلوں، اپنا ماضی الضمیر بیان کردوں اور کسی کو برا بھی نہ لگے۔ سوچا کہ کیوں نہ مرغی اور فروٹ، سبزی مہنگی کرنے والوں کی خبر لیتا ہوں، جو کارٹل بنا کر چیزیں منہگی کرتے ہیں، ذہن میں الفاظ جمع ہی کر رہا تھا کہ دل نے کہا اگر کسی سبزی فروش نے تھانے جاکر شکایت کردی تو کیا ہوگا؟ ملک بھر کے سبزی فروشوں کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کا الزام لگا دیا گیا تو؟

پھر خیال آیا کہ چینی مافیا پر لکھ ڈالوں، جنھوں نے 130سے 140روپے فی کلو والی چینی 180روپے میں بیچ ڈالی، اربوں روپے منافع کمایا، حکومت کو بھی دیر سے قیمت مقرر کرنے کا خیال آیا۔ بقول جلال لکھنوی:

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

پھر خیال آیا کہ چینی مافیا یا حکومت نے کیس کردیا تو کیا ہوگا؟ ہتک عزت کا دعویٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اچانک میں کرسی سے اچھل پڑا کہ اسمگل شدہ پیٹرول، کپڑا، برتن بھانڈے وغیرہ لانے اور بیچنے والوں پر لکھتا ہوں لیکن پھر خوف نے آگھیرا کہ کہیں پولیس مقدمہ درج نہ کرلے کہ ہمیں تو اس سب کا پتا ہے لیکن تحریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پولیس لاعلم ہے، اس سے عوام میں اشتعال پیدا ہوگا اور یہ بھی کہ کیا پولیس اپنے علاقے میں ہونے والی کارستانیاں نہیں جانتی؟ پولیس پر لاعلمی کا الزام عاید کرنے کا بھی الزام عاید کردیا گیا تو؟

ذہنِ رسا نے آسان سا موضوع ڈھونڈ نکالا کہ کیوں نہ ایسے ٹھیکے داروں اور سرکاری افسران کے خلاف آواز بلند کروں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہی سڑک بار بار بناتے ہیں جو ہر سال کبھی بارش میں بہہ جاتی ہے تو کبھی گٹر یا پانی سمیت کوئی اور لائن ڈالنے کے بہانے کھود دی جاتی ہے، پھر خیال آیا کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جیسے سب مل کر کھاتے ہیں اگر اسی اتحاد سے کیس دائر کردیا کہ عوام میں ہماری ساکھ خراب کردی، الزام تراشیوں سے عوام کو اکسانے کی کوشش کی گئی ہے تو؟

پھر سوچا کہ کیوں نہ بادشاہ کے خلاف لکھ ڈالوں، یہاں تو کوئی بادشاہ بھی نہیں ہے، ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے، آمریت کا دور دور تک پتا نہیں ہے، لیکن خیال آیا کہ اگر کوئی خود کو بادشاہ سمجھتا ہے تو پھر؟ کیوں کہ پیکا قانون کہتا ہے کہ فیک یعنی جعلی نیوز پھیلانے والوں کو گرفتار کیا جائے گا، انھیں سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ بھگتنا بھی پڑسکتی ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا دلچسپ اور ذومعنی گفتگو میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، انھوں نے پیکا قانون کا دفاع کیا اور بڑی پتے کی بات کہہ ڈالی کہ پیکا قانون شمالی علاقہ جات کی سیر سے بہتر ہے، کیونکہ بندہ شمالی علاقوں کی سیر کے بعد واپس آتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں تو اپنی مرضی سے گیا تھا، بس گھر والوں کو بتانا بھول گیا تھا، دیکھا جائے تو پیکا قانون ایک نعمت ہے نعمت۔ یعنی پھانسی کی سزا سے بچ گئے تو قید لازم۔

یہاں مجھے ایک قصہ یاد آرہا ہے کہ قتل کے ملزم کے اہل خانہ نے وکیل سے کہا کہ ملزم کو کسی طرح سزائے موت سے بچالیں، عمرقید ہوجائے تو بہت ہی اچھا ہوگا، کیس کی آخری سماعت کے بعد وکیل پسینہ پونچھتے اور مسکراتے ہوئے فخریہ انداز میں عدالت سے باہر آیا، اور ملزم کے اہل خانہ سے کہا کہ فیصلہ آپ کے مرضی کے مطابق کرا دیا ہے، جج صاحب تو ملزم کو رہا کرنے پر تلے ہوئے تھے، میں نے انھیں بڑی مشکل سے عمرقید پر راضی کرلیا۔

اگلے دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مضبوط کرنے پر اتفاق ہونے کے ساتھ ساتھ ملک دشمنوں کو بے نقاب کرنے، سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا سدباب کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کہ ملک دشمن مہم کا منھ توڑ جواب دینے کے لیے روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ قومی بیانیہ نوجوانوں تک پہنچانے کے لیے فلموں اور ڈراموں میں موضوعات کو اپنایا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

کیا قومی بیانیہ صحافیوں سے زیادہ کوئی جانتا ہے؟ یہی پاکستانی میڈیا اور صحافی ہیں جنھوں نے آمروں کے ہاتھوں کوڑے کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنی بساط کے مطابق سچ لکھتے اور کہتے رہے، یہ بات ہر ایک پر واضح ہے کہ قومی بیانیہ صرف ایک ہے اور وہ ہے وطن عزیز کی حرمت اور اس کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دینا، اس کے سوا کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں۔ اور یہ قومی بیانیہ ان صحافیوں سے اچھا کوئی نہیں جانتا۔

سچ وہ نہیں ہوتا جو بادشاہ سننا اور لکھوانا چاہتا ہے بلکہ سچ وہ ہوتا ہے جو زبان زد عام ہو۔ بقول معروف شاعر ڈاکٹر طاہر شہیر:

چھوٹا سا اک سوال ہے، یہ کیسے ہوگیا

اس ملک کا جو حال ہے، یہ کیسے ہوگیا

Similar Posts