’راتوں رات زمین غائب‘، بنگلہ دیش ڈوب رہا ہے؟

دھند سے ڈھکی ایک صبح 50 سالہ کسان نور النبی اپنی لکڑی کے کشتی پر بانس کے ڈنڈے اور ٹن کی چادریں لاد رہے تھے۔ ان کا گھر، جو انہوں نے صرف ایک سال پہلے دریائے برہما پتر کے کنارے ایک نازک جزیرے پر بنایا تھا، اب پانی میں ڈوبنے والا تھا۔ ایسا ایک سال میں دوسری بار تھا کہ نورالنبی کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

نور النبی تھکن زدہ لہجے میں کہتے ہیں، “دریا ہر روز قریب آتا جا رہا ہے۔ ہم دکھ کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ میں بھول گیا ہوں کہ دریا نے کتنی بار میرا گھر نگل لیا۔”

نور النبی اب ایک اور چار (ریت سے بننے والے عارضی جزیرے) کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ ان کے چاول اور دال کے کھیت پہلے ہی دریا کی تیز دھارا میں بہہ چکے ہیں۔

برہما پتر، جو ہمالیہ سے نکل کر چین اور بھارت سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش پہنچتا ہے، اب اپنی طغیانی سے زندگیاں اجاڑ رہا ہے۔

نورالنبی افسوس کے ساتھ کہتے ہیں، “نئے گھر میں کیا ہوگا، معلوم نہیں۔ قسمت اچھی ہوئی تو کچھ سال، ورنہ شاید ایک مہینہ، یہی ہماری زندگی ہے۔”

زمین جو راتوں رات غائب ہو جاتی ہے

رائٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی ضلع کوریگرام میں ہر سال سینکڑوں خاندان یہی انجام بھگتتے ہیں۔ دریا کے زمینی کنارے گرنے سے ان کے گھر، زمین، مویشی سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ کبھی زندگی دینے والے دریا برہما پتر، تِیستا اور دھارلا اب زمین کھانے والی طاقت بن چکے ہیں۔

70 سالہ کسان حبیب الرحمٰن نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، “پانی کبھی اطلاع نہیں دیتا۔ رات کو سوتے ہیں اور صبح اٹھتے ہیں تو دریا کا کنارہ بہہ کر پیچھے ہٹ چکا ہوتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو سب کچھ ختم۔ زندگی میں سکون نہیں۔”

ایسے میں جب اقوامِ متحدہ کا اہم ترین موسمیاتی اجلاس کوپ 30 (COP30) ہونے جارہا ہے، بنگلہ دیش کی یہ حالت دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگرچہ اس ملک نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے بند باندھے ہیں، فلڈ وارننگ نظام بہتر کیا ہے، اور مقامی سطح پر موافقت کے منصوبے اپنائے ہیں، مگر ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی مدد کے بغیر یہ کوششیں ناکافی ہیں۔

موسمیاتی ماہر اینعون نشاط کے مطابق: “یہ لوگ اس آفت کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو انہوں نے خود پیدا نہیں کی۔ اگر کوپ 30 کا کوئی مطلب ہے تو یہ ہونا چاہیے کہ نقصان اور تلافی کے لیے حقیقی فنڈنگ ہو، تاکہ ایسے ممالک اپنی زمین اور زندگیوں کو بچا سکیں۔”

موسمیاتی تبدیلی کا واضح منظر

ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی کا زندہ ثبوت ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے دریاؤں میں پانی دوگنا بڑھ گیا ہے۔

نشاط کہتے ہیں، “مون سون کا نظام بھی بگڑ چکا ہے، اب بارش کبھی بہت زیادہ ہوتی ہے تو کبھی بالکل نہیں ہوتی۔ جب برستی ہے تو طوفان کی طرح، اور جب رکتی ہے تو خشک سالی۔ یہی بے ترتیبی دریا کی کٹاؤ اور تباہی کو بڑھا رہی ہے۔”


AAJ News Whatsapp

بنگلہ دیش دنیا کے کل کاربن اخراج میں آدھے فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، لیکن نقصان سب سے زیادہ یہ ملک اٹھا رہا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 2050 تک ہر ساتواں بنگلہ دیشی شخص موسمیاتی آفات کے باعث بے گھر ہو جائے گا۔

بچوں اور عورتوں کا سب سے زیادہ بوجھ

50 سالہ قاسم الدین** کہتے ہیں: “دریا نے میرا گھر 30 سے 35 بار بہایا ہے، شاید اس سے بھی زیادہ۔ ہر بار ہم نیا گھر بناتے ہیں، اور ہر بار دریا پھر آ جاتا ہے۔ کہاں جائیں؟ اب تو لگتا ہے ساری دنیا پانی بن چکی ہے۔”

30 سالہ شاہینہ بیگم بتاتی ہیں کہ وہ پچھلے دس برسوں میں چھ بار ہجرت کر چکی ہیں۔ “ایک بار میں کمر تک پانی میں کھڑی ہو کر کھانا پکا رہی تھی۔ عورتوں کے لیے تو یہ زندگی اور بھی مشکل ہے۔ نہ پرائیویسی ہے، نہ تحفظ۔ ہم بچوں کو سنبھالیں یا اپنا گھر؟”

زندہ رہنے کی ضد، زمین سے چمٹے لوگ

کھیار الگہ چار کے علاقے میں تقریباً 300 خاندانوں نے پچھلے تین سال سے دریا کے حملوں کو روکے رکھا ہے۔ یہاں مقامی تنظیموں نے جیوبیگز یعنی ریت سے بھرے بڑے تھیلے کنارے پر رکھ کر بند مضبوط کیے ہیں۔

39 سالہ ظہور الاسلام، جو اپنا گھر دس بار کھو چکے تھے، اب کہتے ہیں، “پچھلے تین سال سے دریا نے ہمارا کچھ نہیں لیا۔ پہلی بار لگتا ہے مستقبل تھوڑا محفوظ ہے۔”

مقامی این جی اوز اونچے پلیٹ فارم والے گھر بھی بنا رہی ہیں تاکہ سیلاب کا پانی اندر نہ گھسے۔ ظہور الاسلام نے مسکراتے ہوئے دریا کی طرف دیکھا اور کہا، “ہو سکتا ہے دریا پھر آ جائے، لیکن اب ہم تیار ہیں۔ اس بار زمین بھی ٹھہری ہے، اور ہم بھی۔”

Similar Posts