امریکی نائب صدر جے ڈی وانس اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ امریکی وفد نے پیر کو تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے طے پانے والی جنگ بندی (سیز فائر) کو برقرار رکھنا اور دونوں فریقوں کو دوبارہ سمجھوتے کی راہ پر لانا تھا۔
گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ حماس کے ایک حملے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جس کے ردِ عمل میں اسرائیل کی فائرنگ اور 100 سے زائد فضائی حملوں میں غزہ میں متعدد افراد جان سے چلے گئے اور سیز فائر کو بہت بڑا دھچکا لگا۔
غزہ کے لیے جزوی امداد بحال: اسرائیل نے دو گزرگاہیں کھول دیں، رفح بدستور بند
امریکی وفد کا مقصد نہ صرف جلتی ہوئی صورتِ حال کو ٹھنڈا کرنا بلکہ طے شدہ 20 نکاتی منصوبے کے اگلے، زیادہ مشکل مراحل پر مذاکرات کا آغاز کرنا بھی ہے۔
ادھر، حماس کی جانب سے ایک اور یرغمالی کی لاش ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیلی فوج کو منتقل کی گئی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مزید لاشیں بھی جلد حوالے کی جا سکتی ہیں، تاہم غزہ کے شدید تباہ شدہ علاقوں کی وجہ سے کچھ لاشوں کی بازیابی مشکل ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق، ماہرین اور مذاکراتی ٹیمیں بتا رہی ہیں کہ اصل چیلنج اب بھی وہی ہیں: حماس کے ہتھیار جمع کروانے کا مسئلہ، اسرائیلی فوجی مزید پیچھے ہٹیں یا نہیں، اور غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کون کرے گا۔ ان بڑے سوالات پر اتفاق ہونا ضروری ہے ورنہ عارضی امن جلد ہی بحال نہیں رہ سکے گا۔
عام لوگ اور غزہ کے رہائشی خوفزدہ ہیں کیونکہ سرحدی علاقوں میں بار بار گولہ باری اور ٹینک فائر کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ امدادی سامان اور خوراک کی رسائی بھی متاثر ہے، جس سے عام انسانیت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ بعض مقامات پر اسرائیل نے سیز فائر کی ابتدائی حدبندی والی لکیر کے نزدیک کارروائیاں کی ہیں اور دونوں اطراف میں کنٹرول لائنوں کے تعین کو لے کر الجھن پائی جا رہی ہے۔
اسرائیلی فوج کا غزہ میں 97 فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد دوبارہ سیز فائر نافذ
مذاکرات کاروں کا مقصد یہ ہے کہ پہلے سیف حصّہ مضبوط کیا جائے پھر اگلا مرحلہ جس میں حماس کی ڈس آرممنٹ اور ایک عارضی تکنیکی انتظامیہ جیسے حساس معاملات ہیں، ان پر تفصیلی گفت و شنید شروع ہو۔
مصر میں بھی بات چیت جاری رہنے کی توقع ہے تاکہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر مربوط انداز میں آگے بڑھ سکے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ کوششیں کشیدگی کو مستقل طور پر ختم کر پائیں گی یا نہیں۔