برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ کے ڈائریکٹر جنرل ٹِم ڈیوی نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔ ٹم ڈیوی کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ادارے کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں مبینہ طور پر ایڈیٹنگ کے ذریعے “تشدد کی ترغیب دینے” کا تاثر پیدا کرنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تنازع نے بی بی سی کی غیرجانبداری پر سنگین سوالات اٹھا دیے۔
ٹِم ڈیوی کے ساتھ ہیڈ آف نیوز ڈیبرا ٹرنَس نے بھی مشترکہ طور پر استعفا دیا۔ دونوں کے استعفے اُس تنازع کے بعد آئے جس میں کہا گیا کہ بی بی سی کے مشہور پروگرام “پینوراما” نے 2021 میں ٹرمپ کی ایک تقریر کو اس انداز میں ایڈٹ کیا کہ جیسے وہ اپنے حامیوں کو امریکی کانگریس پر حملے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
حقیقت میں ٹرمپ نے اُس دن اپنے حامیوں کو احتجاج پر اُبھارا ضرور تھا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ احتجاج “پرامن ہونا چاہیے” ۔ بی بی سی کی ایڈیٹنگ میں یہ جملہ حذف کر دیا گیا تھا۔
ٹِم ڈیوی نے استعفے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ “بطور ڈائریکٹر جنرل میں تمام غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ یہ فیصلہ میرا ذاتی اور سوچا سمجھا ہوا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں ان کا جانشین بی بی سی کے آئندہ چارٹر پلانز کو بہتر طور پر تشکیل دے سکے۔
ڈیبرا ٹرنَس نے بھی اعتراف کیا کہ ٹرمپ سے متعلق دستاویزی فلم پر تنازع بی بی سی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا، “بطور سی ای او آف بی بی سی نیوز، ذمہ داری مجھ پر آتی ہے۔ یہ ادارہ میرے لیے بہت عزیز ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں میرا عہدہ چھوڑنا درست ہے۔”
سیاسی دباؤ میں اضافہ
برطانوی وزیرِ ثقافت و اطلاعات لیزا نینڈی نے کہا کہ یہ الزامات انتہائی سنگین ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بی بی سی کے اندر ادارتی تعصب موجود ہے۔ اُن کے مطابق “دائیں بازو کے لوگ اسے لبرل تعصب کا مرکز کہتے ہیں جبکہ بائیں بازو کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بی بی سی حکومت کے مفادات کے مطابق رپورٹنگ کرتا ہے، خاص طور پر غزہ کے مسئلے پر۔”
اسی دوران دائیں بازو کے اخبارات اور سیاستدانوں نے بی بی سی کے خلاف مہم تیز کر دی۔
ڈیلی ٹیلی گراف نے ایک خفیہ میمو شائع کیا جس میں سابق بی بی سی عہدیدار مائیکل پریسکاٹ نے ادارے کے “ٹرمپ ایڈٹ” پر اعتراض کیا تھا اور ساتھ ہی بی بی سی عربی سروس پر اسرائیل مخالف رویے کا الزام لگایا تھا۔
اسی رپورٹ کے بعد برطانوی قدامت پسند رہنما پریتی پٹیل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بی بی سی عربی سروس کی فنڈنگ کا جائزہ لیا جائے کیونکہ اُس پر حماس نواز اور اسرائیل مخالف رپورٹنگ کے الزامات ہیں۔
دوسری جانب بی بی سی کو اپنے عملے کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ادارہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کی کوریج میں غیر متوازن رویہ اپنا رہا ہے۔
# **ٹرمپ اور دائیں بازو کی خوشی**
ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے ترجمانوں نے بی بی سی کے استعفوں کو “فتح” قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ “بی بی سی کے کرپٹ صحافی میرے زبردست خطاب کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں پکڑے گئے۔”
اُنہوں نے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کا شکریہ بھی ادا کیا کہ اس نے “ان دھوکے باز صحافیوں کو بے نقاب کیا۔”
امریکی صدارتی دفتر کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بی بی سی کو “سو فیصد جعلی نیوز ادارہ” اور “پروپیگنڈا مشین” قرار دیا۔
بی بی سی پر بڑھتا دباؤ
سی این این کے مطابق، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تنازع صرف ایک تقریر کی ایڈیٹنگ تک محدود نہیں بلکہ بی بی سی کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ادارے کے “لائسنس فیس سسٹم” پر بھی حکومت نظرِ ثانی کر رہی ہے جس کے تحت ہر برطانوی گھرانہ سالانہ 174 پاؤنڈ ادا کرتا ہے۔
کچھ قدامت پسند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹ فلیکس اور اسپاٹی فائی کے دور میں یہ نظام پرانا ہو چکا ہے۔
ٹِم ڈیوی نے 2020 میں عہدہ سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ بی بی سی کی غیرجانبداری بحال کریں گے، مگر حالیہ سیاسی اور میڈیا میں موجود ماحول کو انہوں نے “بخار آلود” (Febrile) قرار دیا۔
بی بی سی کے معروف صحافی نک رابنسن نے کہا کہ “ادارتی غلطیاں واقعی ہوئی ہیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ طاقتور حلقے بی بی سی کو کمزور کرنے کی منظم کوشش کر رہے ہیں۔”
