اپنے ویڈیو پیغام میں ضیا ذوالفقار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلائی گئیں کہ سعد کو سات سال قید اور ڈیڑھ کروڑ روپے جرمانہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ سعد سے جیل میں ملنے گئے تو وہ مسلسل دو دن سے رو رہا تھا اور کہنے لگا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے، کیس اتنا بڑا تو نہیں۔ سعد کو گرفتار ہوئے تین ماہ ہوچکے ہیں، جن میں 22 دن وہ جسمانی ریمانڈ پر رہا، باقی مدت جیل میں گزر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کیس نے نہ صرف سعد بلکہ پوری فیملی خصوصاً خواتین پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ضیا ذوالفقار نے کہا کہ اس دوران کئی رپورٹرز اور سوشل میڈیا پیجز نے مختلف باتیں کہیں جس میں سچ اور جھوٹ دونوں شامل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے این سی سی آئی کے خلاف جو قانونی کارروائی کی ہے وہ صرف ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو بلیک میلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیل میں ملاقات کے دوران وہ ڈکی بھائی سے ٹیلی فون کے ذریعے شیشے کے پار بات کرتے ہیں، وہاں لوگوں سے مل کر پتا چلا کہ بہت سارے قیدی بھی بلیک میلنگ کا شکار ہیں۔
ضیا نے کہا کہ جیل سے واپسی پر وہ، والدہ اور عروب اکثر یہ سوچتے ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں جو وکیل کی فیسیں اور سفری اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، جب کہ بہت سے قیدی مالی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ اپنی قانونی مدد حاصل نہیں کر پاتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ این سی سی آئی بطور ادارہ کرپٹ نہیں لیکن ان کا واسطہ ایسے افراد سے پڑا جو اختیارات کا غلط استعمال کر رہے تھے۔ ایف آئی اے اینٹی کرپشن نے اس معاملے میں بھرپور تعاون کیا اور ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
آخر میں ضیا ذوالفقار نے عوام کو مشورہ دیا کہ اگر کوئی سرکاری افسر انہیں بلیک میل کرے تو ثبوتوں کے ساتھ اینٹی کرپشن سرکل سے رجوع کریں، وہ ضرور مدد کریں گے۔ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سیل کی وجہ سے نظام پر ہمارا اعتماد دوبارہ بحال ہوا ہے۔