سائنسدانوں نے سیکڑوں سال طویل عمر کا راز دریافت کر لیا

سائنس کی دنیا میں ایک حیرت انگیز دریافت سامنے آئی ہے جو انسانی زندگی کی سمت بدل سکتی ہے۔ ماہرینِ حیاتیات نے انسانی ڈی این اے سے جڑی ایک اہم پہیلی حل کر لی ہے، جس کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان سینکڑوں سال تک زندہ رہنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق نیویارک کی راچسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی، جنہوں نے ایک طویل عمر رکھنے والے ممالیہ، یعنی خمیدہ سر والے وہیل، کے جینیاتی نظام یا ڈی این اے کا تجزیہ کیا۔ یہ وہیل دو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتا ہے۔ ’برطانوی اخبار ڈیلی ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق حیاتیاتی سائنس میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اس کی طویل عمر کا راز ایک خاص پروٹین میں پوشیدہ ہے جسے کولڈ انڈیوسڈ آر این اے بائنڈنگ پروٹین یا سی آئی آر بی پی کہا جاتا ہے۔ یہ پروٹین وہیل کے جسم میں ڈی این اے کی مرمت کرتا ہے اور اسے کینسر جیسے امراض سے بچاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر انسانوں میں بھی اس پروٹین کو فعال کیا جا سکے تو انسانی عمر میں غیر معمولی اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔

کوویڈ ویکسین سے کینسر کا دعویٰ، جنوبی کوریا میں ہوئی ریسرچ کی حقیقیت کیا ہے؟

راچسٹر یونیورسٹی کی ٹیم نے اس پروٹین کو انسانی خلیات میں شامل کیا تو حیران کن طور پر یہ خلیات اپنی مرمت پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر انداز میں کرنے لگے۔ یہی تجربہ جب فروٹس کی مکھیوں پر کیا گیا تو ان کی عمر میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

اس تحقیق کی قیادت نیویارک کی راچسٹر یونیورسٹی کی پروفیسر ویرا جوربونوفا نے کی، جو بڑھاپے اور عمر کے اثرات پر سائنسی تحقیق کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی علامت ہیں کہ انسان اپنی موجودہ اوسط عمر سے کہیں زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتا ہے۔

راچسٹر یونیورسٹی کی ٹیم نے الاسکا کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر یہ بھی معلوم کیا کہ سرد ماحول یا کم درجہ حرارت اس پروٹین کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اس دریافت کو انسانوں پر کیسے لاگو کیا جائے، لیکن پروفیسر ویرا جوربونوفا کے مطابق جسم میں اس پروٹین کی سرگرمی بڑھانے کے طریقے تلاش کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں جیسے سرد پانی سے غسل کرنا یا ٹھنڈے ماحول میں رہنا شاید جسم میں اسی ’ایجنگ پروسس‘ کو متحرک کریں جو وہیل کو طویل عمر دیتا ہے۔

سالہ چینی خاتون کی طویل عمری کا راز کیا ہے؟

پروفیسر ویرا جوربونوفا کا کہنا ہے کہ جینز کو محفوظ رکھنے کے کئی بائیولوجیکل طریقے ہیں، لیکن خمیدہ سر والے وہیل میں ایک انوکھا نظام پایا گیا ہے جس میں سی آئی آر بی پی پروٹین غیر معمولی سطح تک فعال ہو جاتا ہے۔ تاہم سائنسدان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ نتائج فی الحال نظریاتی ہیں اور ان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

یہ دریافت اس معمے سے بھی جڑی ہے جسے “پی ٹوز پیئر ا ڈاکس” کہا جاتا ہے، یعنی بڑے ممالیہ جانوروں میں، زیادہ خلیات ہونے کے باوجود، کینسر کے امکانات کم کیوں ہوتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ خمیدہ سر والے وہیل میں موجود سی آئی آڑ بی پی اس پہیلی کا ممکنہ جواب ہے۔


AAJ News Whatsapp

اب راچسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس پہیلی کا ممکنہ جواب ڈھونڈ لیا ہے۔ خمیدہ سر والے وہیل کے جسم میں موجود سی آئی آر بی پی پروٹین ڈی این اے کے ٹوٹے ہوئے حصوں کی مرمت میں مدد دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جینیاتی نظام صدیوں تک مستحکم رہتا ہے۔ وہیل کے خلیات خود کو انسانوں کے مقابلے میں کہیں بہتر انداز میں مرمت کرتے ہیں، جس کی بدولت وہ طویل عرصے تک صحت مند رہتے ہیں۔

راچسٹر یونیورسٹی کی ٹیم اب یہ جانچنے میں مصروف ہے کہ آیا یہی پروٹین چھوٹے اور کم عمر ممالیہ میں بھی وہی کردار ادا کر سکتا ہے جو اس دیوہیکل وہیل میں دیکھا گیا ہے۔ اگر یہ ممکن ثابت ہو گیا تو یہ تحقیق انسان کے لیے عمر درازی کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔

Similar Posts