حیرانی

آج ہم ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کے گرد دشنام طرازی اور پراپگینڈے کا اتنا دبیز اندھیرا پھیلایا گیا ہے کہ وہ ابھی تک چھٹ نہیں پایا حالانکہ اب تو باقاعدہ انگریزی حکومت کی سرکاری دستاویزات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نیٹ ورک تھا جس نے اس شخصیت کے خلاف مسلسل زہر اگلا ہے، جس میں سابقہ این ڈبلیو ایف پی یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ مختصراً صوبہ سرحد میں اس وقت کے بہت سارے ملا،پیر صاحبان اور سجادہ نشین سرکاری پیرول پر سرگرم تھے۔

ان سب کا کام عوام میں اس شخصیت کو بیک وقت روس ،جرمنی اور ہندوستان کا ایجنٹ مشہور کرنا تھا۔ ولی خان مرحوم نے بڑی کوشش سے لندن جاکر گورنر جارج کنگھم کے دفتر سے دستاویزات برآمد کر کے اپنی کتاب ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ میں درج کیا ہے، ان دستاویزات میں نام بنام ، ان ملاوں اور سجادہ نشینوں کو دی جانے والی رقومات کا اندراج ہے جو ہندوستان کی انگریز سرکاری انھیں ادا کرتی تھی ، ان میں پندرہ روپے سے لے کر پچاس روپے تک کے حضرات کے نام ہیں ، سب سے بڑی پیمنٹ دوہزار روپے تھی، جن محترم کو یہ رقم ملتی تھی، ان کو اس لیے ملتی تھی کہ وہ ان لوگوں میں تقسیم کریں جو ان کے حلقہ ادارت میں شامل ہیں، ان بزرگوار کا ایک باچا خان کے بارے میں طنزیہ قول بڑا مشہور ہے۔

بہرحال میں یہاں ایک اور شخصیت کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا نام یوسف لودھی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت آدمی تھا۔ پشاور سے ایک انگریزی ہفتہ وار پرچہ نکلتا تھا، وہ بڑا اچھا کارٹونسٹ بھی تھا ،کارٹونوں کی ایک کتاب بھی ان کی چھپی تھی لیکن ان کی ایک اور کتاب بڑی مقبول ہوئی تھی جو انھوں نے ’’کلیلہ دمنہ‘‘یا جنگل کی طرز پر لکھی تھی۔ اس کتاب میں ملکی سیاست کو جنگل اور جنگلی جانوروں کے استعارے میں بیان کیا گیا تھا۔

ولی خان کو اس کتاب کا ہیرو یعنی شیر بیان کیا گیا تھا۔اس زمانے وہ پشاور صدر میں مقیم تھے اور میرا بھی قلندرمومند کی وساطت سے تعارف ہوگیا۔پھر ہم دونوں میں گاڑھی چھیننے لگی۔ پھر وہ پشاور چھوڑ کر چلے گئے، شاید اسلام آباد یا کراچی یا کہیں اور۔کیونکہ ان دنوں میں بھی دربدری کا شکار تھا، سرکاری عتاب کا شکار تھا، اس لیے اپنے گاؤں ہی میں کاشت و برداشت کررہا تھا۔خیر تو جب باچاخان افغانستان سے لوٹ کر آگئے تو یوسف لودھی نے اپنے ہفت روزہ کے لیے ان کا انٹرویو لینا چاہا۔میں، قلندرمومند اور یوسف لودھی ان کے گاؤں پہنچے تو باچاخان ایک درخت کے سائے میں چارپائی پر دراز تھے۔

علیک سلیک کے بعد انٹرویو شروع ہوا، باقی سوال وجواب تو حسب معمول تھے لیکن ایک مرحلے پر ہم بھی چونک گئے، جب یوسف لودھی نے یہ سوال کیا کہ ’’آپ نے یہ خدائی خدمت گار کیسے بنائے۔‘‘ باچاخان نے بھی کوئی خاص جواب نہیں دیا، صرف اتنا کہا کہ میں کون ہوتا ہوں، بنانے والا، بنائے تو خدا نے ہیں، میں نے تو صرف سکھایا ہے‘‘۔ واپسی پر ہم نے لودھی صاحب سے پوچھا، یہ کیسا احمقانہ سوال تھا۔ وہ بولے، احمقانہ نہیں بلکہ سب سے زیادہ دانشمندانہ سوال تو یہی تھا کیونکہ میں نے دنیا کی تاریخ پڑھی ہے اور انسانی تاریخ میں کہیں بھی ایسے لوگوں کی مثال نہیں ملتی جو جان دیتے ہوں، لیتے نہیں ہوں۔

جہاں کہیں بھی خودکش فدائی پیدا ہوتے ہیں مثلاً حسن بن صباح کے فدائی بھی جان دیتے تھے لیکن پہلے جانیں لیتے تھے بلکہ جانیں لیتے ہوئے جان دیتے تھے۔ یہیں پر میں نے حسن بن صباح کے بارے میں تفصیل پوچھی کیونکہ ناولوں اور افسانوں میں شیخ الجبال حسن بن صباح ، اس کی جنت اور فدایوں کے بارے عجیب وغریب افسانے پڑھے تھے۔

بولے، وہ سب افسانے ہیں، منگولوں کے زمانے میں جب اس کے قلعے کو فتح کیا گیا تو پتہ چلا کہ فدائیوں کو بھنگ پلائی جاتی تھی ، ان فدائیوں کو بھنگ کی لت لگائی جاتی تھی اور جب وہ عادی ہوجاتے تھے تو نشہ دینا بند کردیا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ فلاں کو مار کر آو تو ’’جنت‘‘ دوبارہ ملے گی اور فدائی ناممکن کو ممکن کرنے کے لیے چل پڑتے یا ٹارگٹ کو مارتے یا خود مارے جاتے۔ بیچارے فدائی یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ سب کچھ اس مشروب کا کیا دھرا ہے جو انھیں پلایا جاتا ہے جس کا راز شیخ الجبال کو معلوم تھا۔

بہرحال جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، یوسف لودھی نے کہا، ہمارے خطے میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے انسانوں کی اتنی کایا کلب کردی ہو، وہ بھی ایسے خطے میں جہاں تشدد ہی تھا، بات بات پر قتل وقتال روزمرہ کا معمول تھا۔باچاخان کے یہ خدائی خدمت گار نرالے لوگ تھے، جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

وہ جب مظاہرے یا دھرنے دیا کرتے تھے اور انگریزی فورسز چڑھ آتی تھیِ تو خدائی خدمت گاراپنی کمر سے چند گز کی رسی کھول کر اپنے ہاتھ باندھ کر لاٹھی چارج، گولیوں اور ٹینکوں کے آگے کھڑے ہوجاتے، تشدد سہتے رہتے،گھائل ہوتے رہتے، مرتے رہتے لیکن جواب میں کسی کو تھپڑ تک نہ مارتے ۔میں حیران ہوں کہ اس شخص میں ایسی کیا کشش ہے؟ یوسف لودھی بعد میں بھی اکثر کہتا رہتا تھا۔ اس شخص میں ایسی کیا کشش ہے؟

Similar Posts