مچھر کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں نمایاں طور پر ڈینگی بخار اور چکن گونیا وائرس نے حالیہ ہفتوں میں تیزی سے پھیلاؤ کا سامنا کیا ہے، جس کا اثر ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی پر پڑا ہے اور ہزاروں افراد اس سے بیمار ہو گئے ہیں۔
کیوبا کے چیف ایپیڈیمیالوجسٹ، فرانسسکو دوران نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صورتحال بہت سنگین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس وقت کورونا وائرس کی وبا کے دوران کی طرح شدت سے کام کر رہی ہے تاکہ ادویات اور ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے اور اس وائرس کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
کیوبا میں چکن گونیا وائرس جو پہلے جزیرہ نما ملک میں نایاب تھا اب تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ڈینگی بخار جو کہ طویل عرصے سے کیوبا میں پایا جاتا ہے اب ایک نئے سرے سے شدت اختیار کر چکا ہے۔
کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں جہاں حالات سب سے زیادہ تشویشناک ہیں جمعرات کو حکومتی ٹیموں نے مچھر مار اسپرے کرنے کا آغاز کیا تاکہ مچھروں کو کنٹرول کیا جا سکے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
تاہم مقامی رہائشی تانیا مینڈیز نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ابتدائی قدم ہے لیکن شہر کی گلیوں میں کچرے کی صفائی اور ٹوٹے ہوئے پائپوں کی مرمت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
چکن گونیا وائرس کی علامات میں شدید سر درد، جلد پر دھبے اور جوڑوں میں شدید درد شامل ہیں جو کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں طویل مدتی معذوری بھی ہو سکتی ہے۔
یہ وائرس خاص طور پر ایڈیسی مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے، جو کہ ڈینگی اور زیکا وائرس سے بھی منتقِل ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جولائی میں فوری طور پر ایک عالمی سطح پر اقدامات کی اپیل کی تھی تاکہ چکن گونیا وائرس کے عالمی پھیلاؤ کی روک تھام کی جا سکے جو ایک دہائی قبل دنیا بھر میں وبا کی صورت میں پھیلا تھا۔
کیوبا کے لوگ شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس کے باعث دوا، ایندھن اور خوراک کی شدید کمی ہے۔
اس صورتحال میں کئی کیوبن شہری مچھر کے حوالے سے حفاظت کے لئے کیمیائی چھڑکاؤ یا لوشن کی خریداری کے قابل نہیں ہیں اور شہر میں بجلی کی بار بار بندش کے باعث انہیں کھڑکیاں اور دروازے کھول کر رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے بیماریوں کا پھیلاؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔