ضروری ہے کہ اس اہم مسئلے پر غیرجانبدارانہ طور پرغورکیا جائے کہ اس کے مثبت پہلوکیا ہیں اور منفی پہلو کیا ہیں؟
سب سے پہلے اس کے مثبت پہلو پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ۔
(1) یہ نظام کراچی جیسے بڑے شہرکے لیے ضروری بھی ہے،کیونکہ مینول نظام میں ایک جانب تو کروڑوں کی آبادی والے اس شہرکوکنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور دوسری جانب عوام کی شکایت کا انبار ہے کہ ٹریفک پولیس والے رشوت بھی لیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ای چالان کی ضرورت تو بہرحال ہے اور اس کو حکومت سندھ کی جانب سے متعارف کرانا، ایک اچھی بات ہے جس کا کریڈیٹ سندھ حکومت کو دینا چاہیے۔
(2) جس طرح سے ٹریفک حادثات اس شہر میں ہوتے ہیں، خواہ وہ بڑی گاڑیوں مثلاً ڈمپر، ٹینکر وغیرہ سے ہوں یا چھوٹی گاڑیوں سے، اس کی ایک بڑی وجہ بلاتفریق چیکنگ کا نہ ہونا ہے، جیسے ممنوعہ اوقات میں ہیوی گاڑیوں کا روڈ پر چلنا، لٰہذا اس کا علاج بھی ای چلان ہے۔ ای چلان ہی بلاتفریق ان ہیوی گاڑیوں کو کنٹرول کرسکتا ہے۔
(3) اسی طرح ہمارے ہاں لاپرواہی کا ایک کلچر ایسا بن چکا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالنے سے باز نہیں آتے۔ موٹر سائیکلوں میں چین کور، لائٹ اور بیک میئررکا نہ ہونا روزمرہ کے حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ خواتین کے دوپٹے،کپڑے چین میں آنے سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے،اس سبب سے خواتین اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے سے حادثات کے سبب گھر کے کمانے والے دنیا ہی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار وقت بچانے کے لیے ایسے ڈرائیونگ کرتے ہیں کہ جیسے کوئی کرتب کر رہے ہوں، اب اس کلچرکو یقیناً ای چالان کے ذریعے ہی بدلا جاسکتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو ای چالان کے ایک دو نہیں بے شمار فوائد ہیں، تاہم یہ نظام جس طریقے سے کراچی شہر میں متعارف کرایا گیا ہے، اس سے یہ پہلے ہی دن سے تنقید کا نشانہ بن گیا ہے اور اس کے مثبت پہلو، تنقید کے باعث منفی پہلوکے طور پر منظر پر چھا گئے ہیں۔ ان منفی پہلوؤں کو تھوڑا سا درست کرلیا جائے تو یقیناً یہ نظام تمام شہریوں کو پسند آئے گا۔ فی الحال اس کے کچھ منفی پہلو ایسے ہیں کہ ان کو فوری طور پر دیکھنا اور درست کرنا نہایت ضروری ہے مثلاً ۔
(الف) سب سے اہم مسئلہ ای چالان کے مقررکردہ ریٹ ہیں جوکہ مہنگائی کے اس سخت ترین دور میں عام شہریوں کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے،کیونکہ اس شہرکا ایک بڑا طبقہ مزدوروں، ڈیلی ویجیز پرکام کرنے والوں، لوئر مڈل اور مڈل کلاس پر مشتمل ہے۔ یہ طبقہ پہلے ہی مہنگائی سے سخت پریشان ہے۔ ایک عام مڈل کلاس شہری کا بجلی کا بل کم سے کم 20 ہزار روپے،گھرکا کرایہ 40 ہزار، پٹرول کا خرچہ کم سے کم 20 ہزار روپے،گویا صرف ان تین مد میں ایک مڈل کلاس کے 80 ہزارکے قریب ماہانہ خرچ ہوتے جب کہ دیگر اخراجات الگ ہیں جن میں پانی،گیس کے بل کے علاوہ منرل واٹر اور پانی کے ٹینکر ڈالوانے کے بھی اخراجات ہوتے ہیں، اس تمام صورتحال میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک مڈل کلاس کی تنخواہ بمشکل ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے، اب وہ کس طرح اپنا مہینہ گزارے گا؟ اور اگر مڈل کلاس سے نیچے آجائیں یعنی لوئر مڈل کلاس، ڈیلی ویجز والے اور پھر ایک عام مزدوری کرنے والا، ان کی ماہانہ آمدن تو 30 ہزار بھی نہیں ہوتی اور اس شہر میں بے روزگاری الگ ہے۔ اب یہ تو ’’کامن سنس‘‘ کی بات ہے کہ جہاں شہریوں کی ایک بڑی تعداد دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان رہتی ہو، وہ بھلا یہ بھاری بھرکم جرمانے کیسے ادا کرسکتی ہے؟
(ب)اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شہر میں گاڑیوں میں سب سے زیادہ تعداد موٹر سائیکل والوں کی ہے اور یہی طبقہ مہنگائی سے بھی سب سے زیادہ متاثرہ۔ ہردوسرا موٹرسائیکل سوار مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہے کہ وہ اپنی موٹر سائیکل کی ضروری مینٹینس بھی کرانے سے قاصر ہے، گھسے پٹے ٹائروں سے کام چلا رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ دو ہزارکے نئے ٹائر خریدنے کے قابل نہیں ہے۔ پٹرول پمپس پر دیکھیں، موٹرسائیکل والے 50 روپے، 100 اور 200 روپے کا پٹرول ڈالواتے نظر آئیں گے، ان کے پاس ایک لیٹر پٹرول ڈالوانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی قانون اس لیے بنایا جاتا ہے کہ نظام کو بہتر بنایا جائے، اسی نقطہ نظر سے قانون شکنی کی سزا بھی رکھی جاتی ہے اور اس سزا میں اصلاح اور تربیت کا پہلو شامل ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ای چالان ایک اچھا شہری بنانے کے بجائے شہریوں کو سزا دینا چاہتا ہے۔ یہی تاثر عام ہے اور تکلیف دہ بھی ہے چنانچہ وقت کی ضرورت ہے کہ ای چالان کے تمام ریٹ نہایت کم ہوں جس میں شہریوں کو احساس دلانا مقصود ہو۔