عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی کہا ہے کہ ملک میں سماجی “بے قاعدگیوں” سے نمٹنے کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے حجاب قوانین پر عمل درآمد میں نرمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت سزاؤں کے اطلاق کا مطالبہ بھی کیا۔
عدالتی سربراہ نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اور ملک بھر کے تمام پراسیکیوٹرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کر کے سماجی بے اعتدالیوں میں ملوث منظم اور بیرونی روابط رکھنے والی سرگرمیوں کی نشاندہی کریں اور انہیں عدلیہ کے سامنے پیش کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دشمن اس کوششوں میں ہے کہ حجاب نہ پہننے پر سزاؤں کو نرم کروا کر ملک میں بے حیائی کو فروغ دے۔
تاحال ایرانی صدر یا حکومت کی جانب سے عدالتی سربراہ کے اس مطالبے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالتی سربراہ کو روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر سر ڈھانپنا اور ڈھیلے ڈھالے لباس پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
تاہم نوجوان کرد لڑکی مہسا امینی کی تھانے میں مبینہ ہلاکت کے بعد حجاب پابندیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے بعد سزاؤں میں نرمی دیکھی گئی۔
البتہ اسرائیل اور امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں درجن سے زائد افراد کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔