مسلم ریاستوں اور معاشروں کو اس وقت جیواسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل توازن، جمہوری اصلاحات اور سماجی، سیاسی اور نظریاتی تبدیلی کے راستے پر بہت سے چیلنجزکا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ اقدامات ریاستوں کو تیزی سے اصلاحات کی طرف لے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ان ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سافٹ امیج تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کا آغاز آج سے پانچ سال قبل 13 اگست 2020 کو ہوا تھا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور امریکا نے سہ فریقی معاہدے کا اعلان کیا تھا، جسے ’’ ابراہیم ایکارڈز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کے بعد 15 ستمبر 2020 کو بحرین اور اسرائیل کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا۔ بحرین، متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ، اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے جس سے اسرائیل اور دونوں خلیجی ریاستوں کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
پاکستان 40,000 مدارس، 500 سرکاری اور نجی مذہبی اداروں، مذہبی گروہوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایک وسیع نیٹ ورک والا ملک ہونے کے باوجود ایسے ذہن پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحثوں میں حصہ لے سکیں۔
ایک پختہ یقین ہے کہ مذہبی اداروں میں استعمال ہونے والے طریقے، ان کے تنظیمی ڈھانچے اور سخت سوچ کی وجہ سے جدیدیت کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم، یہ ایک بہت گہرا مسئلہ ہے جس کے لیے ریاست اور معاشرے میں اس حوالے سے گہرائی سے تحقیق کی ضرورت ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور علمی اور نظریاتی بحثیں کس طرح ریاست اور معاشرے کو تبدیل کر رہی ہیں۔
سعودی عرب اسلام کی جائے پیدائش ہے اور مسلم ممالک اور جہادی تنظیموں کا بڑا معاشی حامی رہا ہے، جہاں اسکالرز اب بحث کر رہے ہیں کہ آیا اسلامی قانون کے تحت مرتد کی سزا موت ہو یا نہ ہو۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حتمی فیصلے جاری کرنے کے اختیار کے ساتھ خود کو ولی العمر یا ریاست کا سرپرست یا محافظ قرار دیا ہے۔
کچھ مغربی مبصرین نے مذہبی رسومات کے خاتمے کے لیے ان کے جرات مندانہ اقدامات کے لیے انھیں مصطفیٰ کمال اتاترک سے تشبیہ دی ہے، لیکن اب تک پاکستان ایسے ذہنوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلم معاشروں میں موجودہ بحث میں حصہ لے سکیں۔
تب سے انڈونیشیا اسلامی فقہ پر جاری بحث میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ندوۃ علماء، دنیا کی سب سے بڑی سول سوسائٹی کی تحریک، خلافت کے تصور کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک قومی ریاست کے تصورکی وکالت کرتی رہی ہے۔
اس نے اسلامی فقہ سے کافر کے تصور کو ختم کرنے اور اسے شہریت کے تصور سے تبدیل کرنے کا فتویٰ یا حکم بھی جاری کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ندوۃ علماء نے سخت گیر ہندو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے بھی بات چیت شروع کر دی ہے جس میں ہندوستانی مسلم تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
تیونس میں اسلام پسند جماعت ’’ انھادہ‘‘ کو اکثر پوسٹ اسلامسٹ تحریک کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس نے سیاسی سوچ میں بڑی تبدیلی کی ہے۔ پارٹی خاص طور پر خواتین کے حقوق سمیت انفرادی آزادیوں کی حامی ہے۔
اس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی مخالفت کرے گا جو کسی خاص مذہبی طرز زندگی کو مسلط کرتے ہیں۔ اس کے رہنما، غنوچی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو زیادہ مذہبی بنانے کی کوشش کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
یہ مسلم معاشروں میں جاری مباحث کی چند مثالیں ہیں۔جو مذہبی سوچ کو بدل رہے ہیں۔ یہ بحثیں مذہب کی ’’ سیکولرائزیشن‘‘ کی طرف لے جا سکتی ہیں، لیکن اس عمل کو مغربی اثرات سے اسلامی فکر کو پاک کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اٹھارویں صدی میں شروع ہوا اور اس نے سیاسی اسلام کی تحریکوں کو جنم دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے جنھوں نے اپنے نظریات کی اصلاح پر بحث شروع کی تھی وہ زیادہ مذہبی ہوتے جا رہے ہیں لیکن سیاسی نظریات کے بوجھ سے خود کو آزاد کر رہے ہیں، وہ اب بھی ریاست کو ایک مذہب کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ یہاں پیش کی گئی مثالیں ظاہر کرتی ہیں، عرب ممالک نے خاص طور پر ریاست، سول سوسائٹی اور سیاسی تحریک کے بارے میں بحث شروع کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی بحث شروع کرنا اب بھی مشکل ہے۔
آئینی طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق اس کے زیادہ تر قوانین اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ مذہبی جماعتیں اب بھی ملک میں شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
ملک کی سیاسی معیشت ان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کی بنیاد ’’خلافت‘‘ ریاست کا تصور ہے۔ ایسی بہت سی جماعتیں ایک مسلم معاشرہ کا تصور بھی نہیں کر سکتیں جو مکمل یا جزوی طور پر ایک قومی ریاست کے ماڈل پر چل رہی ہو۔
کیا پاکستانی علماء آر ایس ایس کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور ہندو مت کے اندر بدلتی تقسیم کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے؟ پاکستانی اور ہندوستانی مسلم اسکالرز کے درمیان ان کے مشترکہ راستوں اور الہام کے ذرائع کے باوجود بہت کم تعامل ہے۔
رفتہ رفتہ دونوں ممالک کے مذہبی ادارے اپنی اپنی سیاسی مجبوریوں اور ریاستی دباؤ کے تحت ایک دوسرے سے ہٹ گئے ہیں۔ ریاستی اداروں نے اپنے نظریات کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے پاکستان میں مذہبی قوم پرستی کو جنم دیا۔
مسلم دنیا میں تبدیلیاں صرف مذہبی اداروں میں ہونے والی تبدیلیوں اور اندرونی سماجی تبدیلیوں تک محدود نہیں ہیں۔ اب ان کی عکاسی ریاستوں کی خارجہ پالیسیوں میں ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام۔ اسے ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب یہ ممالک اصلاحات کی راہ پر گامزن ہیں، اپنی عالمی مصروفیت کے آپشنز کو لچکدار بنا رہے ہیں۔ جو ممالک لچکدار نہیں ہیں وہ نہ صرف مشکلات کا شکار ہیں بلکہ اب وہ غیر متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں میں بیک وقت سیاست، معاشرت اور مذہبی نظریات میں اصلاحات ہو رہی ہیں۔ ہمیشہ ابتدا میں ایسی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ تو آتی ہے لیکن آخرکار یہ اصلاحات ناگزیر ہو جاتی ہیں۔