ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے، جب آج سے تقریباً بیس سال پہلے اردو ٹائمز کے دفتر میں اُن سے ملاقات ہوئی تھی۔ اُس وقت وہ ٹورنٹو میں مین ہیٹن ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے وابستہ تھے۔
روشن خیال بڑے بھائی کی مانند شفیق اور باادب انسان تھے۔ اُن کے لہجے میں نرمی اور باتوں میں علم و تجربے کی خوشبو ہوتی تھی۔ اُن کی شخصیت میں انسان دوستی، خلوص اور وقار نمایاں تھا۔
کمانڈر (ریٹائرڈ) روشن خیال، برصغیر کے عظیم شاعر حمایت علی شاعر مرحوم کے بڑے صاحبزادے تھے۔ وہ ایک بااصول، باوقار اور روشن ذہن شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اپنی زندگی خدمتِ وطن، خاندانی وقار اور انسانی ہمدردی کے اعلیٰ معیار کے ساتھ گزاری۔
روشن خیال صاحب کا تعلق ایک علمی اور ادبی خانوادے سے تھا۔ اُن کے والد حمایت علی شاعر اردو شاعری میں ایک معتبر نام تھے، جن کی فکر اور فن نے پاکستان کے ادبی منظرنامے کو گہرے اثرات دیے۔
ایسے علمی ماحول میں پرورش پانے والے روشن خیال نے تعلیم اور تربیت دونوں میدانوں میں عمدگی دکھائی۔ اُنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان نیوی میں شمولیت اختیار کی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز نظم و ضبط، دیانت اور ذمہ داری کے جذبے سے کیا۔
پاکستان نیوی میں خدمات کے دوران روشن خیال نے مختلف اہم ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ ایک بہادر، اصول پسند اور نڈر افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ مہارت نے اُنہیں اعلیٰ عہدے تک پہنچایا، جہاں اُنہوں نے نہ صرف اپنے ادارے بلکہ ملک و قوم کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اگرچہ روشن خیال صاحب کا پیشہ عسکری میدان سے وابستہ رہا، مگر اُن کی فکری وابستگی ادب اور تہذیب سے تھی۔ اُنہوں نے اپنے والد کے نظریات، انسانی محبت، رواداری اور فکری وسعت کو اپنے مزاج میں سمو لیا تھا۔ گفتگو میں شائستگی، انداز میں متانت اور سوچ میں گہرائی اُن کی شخصیت کی پہچان تھی۔
روشن خیال صاحب نے اپنے پیچھے نہ صرف نیک نامی بلکہ ایک ایسی فکری وراثت چھوڑی ہے جو علم، شرافت اور خدمت کے اصولوں پر قائم ہے۔ اُن کے والد کا نام اردو ادب کے آسمان پر جگمگا رہا ہے، اور روشن خیال صاحب نے اپنی شخصیت کے ذریعے اس روشنی کو عملی کردار اور اخلاقی وقار میں ڈھالا۔
کمانڈر (ریٹائرڈ) روشن خیال ایک باعزم، مہذب، تعلیم یافتہ اور محبِ وطن انسان تھے۔ اُن کا جانا ایک ایسے خاندان، معاشرے اور ملک کے لیے نقصان ہے جو دانش، خدمت اور وقار کی قدر جانتا ہے۔
اُن کی یاد اُن تمام دلوں میں زندہ رہے گی جنہیں اُن سے ملنے، بات کرنے یا اُن کے اخلاق سے متاثر ہونے کا موقع ملا-
زندگی کے آخری برسوں میں وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم تھے، جہاں وہ اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ مگر کچھ عرصہ قبل اُنہیں جگر کے کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ طویل علاج اور ہسپتال میں کئی ماہ گزارنے کے بعد وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ان کے انتقال سے نہ صرف خاندان بلکہ ادب، خدمت اور انسان دوستی سے وابستہ تمام حلقے رنجیدہ ہیں۔