تحریک آزادی کا اہم کردار، پیرالٰہی بخش (آخری حصہ)

مہاجروں کی آبادکاری کے سلسلے میں پیرصاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں جس کے زیر اثر پیر الہی بخش ہاؤسنگ سوسائٹی 1948میں آپ نے رجسٹرڈ کروائی، جس کی بنیادی وجہ قیام پاکستان کے بعد مسلمان مہاجرین اس وقت کے دارالحکومت کراچی منتقل ہوگئے اور ان کی آبادکاری کے لیے پیرالٰہی بخش کالونی کا قیام عمل میں آیا۔

اس بستی کے قیام کے لیے پیر صاحب نے اپنے خاندان کی لیاری ندی کے ساتھ 160ایکڑ پر مشتمل قطعہ اراضی کو مہاجرین کی آبادکاری کے لیے وقف کردیا، یہی نہیں بلکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے حلقہ احباب سے بھی کچھ زمینیں عطیہ کروائیں۔

آپ نے مہاجرین کو روزگار اور متروکہ جائیدادوں کو ہندوستان سے آئے مسلمانوں میں منتقل کرنے میں آنے والی قانونی پیچیدگیوں، رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے اس کے قواعد و ضوابط کو اپنی ذاتی کوششوں سے آسان بنایا۔

مہاجرین کی آبادکاری کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھا اور نوواردان پاکستان کی ہر طرح سے مدد فرمائی ان کو ان کا جائز حق دلوانے میں کسی قسم کے لیت و لعل سے کام نہ لیا، وہ حق جو مقامی پاکستانیوں کو حاصل تھا۔

ایک درد مند دل ان کے وجود کا ہمیشہ حصہ رہا۔ ایک نجی ٹھیکے دار حسن کو پی آئی بی کالونی میں مکانات بنانے کا ہدف دیا اور یوں بے گھر افراد کو سر چھپانے کی جگہ دینے کی کوششوں کا آغاز ہوا، جوکام دیا، اس سے احسن طریقے سے پورا کیاگیا۔

1800روپے کی لاگت سے 150مربع گزکے پلاٹ پر بغیر چھت کی چار دیواری فراہم کی گئی اور195گز کے کشادہ مکانات کی تعمیر بمعہ چھت کے 4000 روپے میں مکمل کی گئی۔

پیر الہی بخش کالونی کی مشہور مساجد میں قدیم جامع مسجد ہاشمی،کھتری، مکھرانی مساجد و دیگر شامل ہیں۔ دہلی کالونی، پیرآباد اور بعض دیگر آبادیوں کا قیام بھی ان کی کاوشوں کا مظہر ہے، یہی نہیں بلکہ ان کی کوششوں سے سندھ میں مختلف تعلیمی اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا۔

کیونکہ تعلیم سے آپ کو جنون کی حد تک لگاؤ تھا، بچوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے، طالب علموں میں تعلیم کی افادیت کو عام کیا، بے شمار بچے ان کے خرچ پر تعلیم حاصل کرتے، وہ سالوں تک سندھ مدرسہ بورڈ کے صدرکی حیثیت سے تعینات رہے۔

عظیم پیر صاحب نے مولوی عبدالحق کو بھی ایک عمارت مہیا کی جہاں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی، بعد ازاں وہاں اردوکالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔

پیر الٰہی بخش علمی ٹاور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سکھرکے قریب ایک پہاڑی پر واقع ہے یہ10فٹ اونچائی اور66 فٹ چوڑائی پر ہے۔

اس کا سنگ بنیاد مئی1939 میں اس وقت کے وزیر تعلیم سندھ پیر الٰہی بخش کے ہاتھوں رکھا گیا اور 1940 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔

پیر صاحب انتہائی خوش اخلاق وضع دار صوم و صلوۃ کے پابند اور درویش صفت انسان تھے،انھوں نے کبھی رنگ، نسل، زبان، عقیدے و دیگر کی بنیاد پر تفرقہ نہ کیا،آپ جب تک حیات رہے، آپ کے گھرکے دروازے کسی عام و خاص کے لیے کبھی بند نہ ہوئے۔

پیر صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جب قائداعظم ؒ کا وصال ہوا تو آپ نے پہلی مرتبہ پیر الٰہی بخش کالونی میں واقع جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے محمد علی جناح کے لیے قائداعظمؒ کا لقب استعمال کیا، اس تاریخی خانہ خدا کا سنگ بنیاد حضرت علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے رکھا۔

ان کی وصیت تھی کہ میری تدفین پیر الہی بخش کالونی کی جامع مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ کی جائے چنانچہ 8اکتوبر 1975 کو پانچ بیٹے جن میں پیر محمدنواز، پیر شاہ نواز، پیر عبدالمجید،پیرعبدالحمید اور پیرعبد الرشید اور دو بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر یہ عہدساز شخصیت اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

ان کے ایک پوتے ایڈووکیٹ پیر مظہر الحق سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر تعلیم بھی رہے اور پیر مظہر کی بیٹی ماروی مظہر بھی رکن سندھ اسمبلی ہیں، وہ سندھ کے ضلع دادو سے رکن منتخب ہوئیں۔

’ایثار‘ کی فکر پر قائم پیر الہی بخش کالونی کی موجودہ ہیئت بالکل بدل چکی ہے پڑھے لکھے ابتدائی پاکستان کے اکابرین کے ورثاء کی اکثریت مختلف وجوہات خصوصا زمانے کی چلن کے زیر اثر اب یہاں سے کوچ کرگئے ہیں۔

مختلف مکتبہ فکر کے اقوام یہاں آکر آباد ہوچلے ہیں۔ پیر صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے پیر عبدالرشید انتہائی شریف النفس انسان تھے وہ جب تک زندہ رہے، اپنے والدکے نقش قدم پر اہل پیرالٰہی بخش کالونی کی خدمت کو اپنا اولین شعار سمجھتے۔

آخری وقت تک وہ کالونی کے تاریخی بس اسٹاپ کی دوبارہ بحالی کے لیے کوشاں رہے جوکہ عوامی آمدورفت کی سہولت کا مسکن تھا جہاں سے روٹ 8-A,8-B,8-C,8-D‘ اور روٹ 8کی بسیں چلتی تھیں۔

1948 سے قائم اس اسٹاپ کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے روٹ مختصر تھے عوامی سہولت کے پیش نظر جس سے کسی بھی قسم کی انہونی سے محفوظ رہا جاسکتا تھا لیکن یہ آج تک دوبارہ آباد نہ ہوسکا۔

ہر طرف کھانے پینے کی دکانوں کی بھرمار ہوچکی ہے، چلنے پھرنے کی جگہ بتدریج محدود ہوتی جا رہی ہے۔ دور حاضر میں لوگ شعور سے اتنے عاری ہوچکے ہیں کہ موٹر سائیکل بھی اس طرح سے پارک کرتے ہیں کہ پیدل چلنے والے بھی چلنے میں دشواری محسوس کریں اور پکوان سینٹر والوں کی تو سڑک بھی اپنی ہوگئی ہے۔

پانی، بجلی،گیس کا رونا تو الگ۔ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی فیڈر ٹرپ ہوجاتے ہیں، سڑکوں کی وہ بدترین صورتحال ہے کہ چلنا محال اور تو اور بعض مکینوں نے حدود سے آگئے نکل کر مکان بنالیے ہیں،کیونکہ وہ عوامی سڑک کو بھی اپنی ہی ملکیت سمجھتے ہیں۔

راقم الحروف کے لیے یہ بات انتہائی قابل فخر ہے کہ پیرالٰہی بخشؒ ہمارے خاندان کے سرپرست اعلیٰ کے علی گڑھ کے ساتھیوں میں تھے، دونوں خاندانوں نے ساری زندگی اس دوستی کی پاسداری کی۔

انسان دوستی کی، اس سے ارفع مثال اورکہیں نہ ملے گی کہ جب تک پیر صاحب وزارت اعلیٰ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کمالی صاحب ملنے نہ گئے اور جب وہ وزارت اعلیٰ سے دستبردار ہوگئے تب کمالی صاحب ملنے کے لیے گئے جس پر پیر صاحب نے انتہائی خفگی سے فرمایا ’’کمالی تم اب آئے ہو‘‘۔

چونکہ یہ ہمارے وہ اسلاف تھے جو اپنے لیے کم بلکہ اصل میں تو وہ خلق خدا کی بھلائی اور آسانی چاہنے والے تھے یہی وہ بنیادی محرک تھا جس کی وجہ سے ان کے ملاقات میں تعطل آیا۔

میری والدہ بیگم رضی کمالی کا میریڈین اسکول پیر صاحب کی حویلی کے احاطے میں تھا، پیر صاحب کے بیٹے، بہو، میری والدہ کا بہت احترام کرتے انھیں ’آپاکمالی‘ کہتے، ان حوالوں سے مجھ ناچیز کو بھی اس عظیم گھرانے سے ملاقات کا شرف ہمیشہ حاصل رہا اور میری پہلی کتاب کے رسم اجراء جوکہ آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔

اس میں پیر رشید انکل اور آنٹی نے خصوصی شرکت کی اور مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں رکھا جوکہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ پیر صاحب جیسے انمول فرشتے صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔

اہل کراچی ان کو ان کے نام سے موسوم پیر الٰہی بخش کالونی کے حوالے سے ہر دم یاد رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہر لکھاری اس عظیم کالونی میں رہائش اختیارکرنا چاہتا تھا مگر آمدنی میں کمی کے باعث وہ اپنے خواب کو عملی جامہ نہ پہنا پاتے۔

جب کہ وہ عملی طور پر ایثارکا زمانہ تھا، لوگ خود سے بڑھ کر دوسروں کو سہولتیں دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ افسوس صد افسوس وہ خوبیاں اب خواب و خیال ہوچکی ہیں، کراچی کا چہرہ مسخ کردیا گیا ہے کہ اب تو یادوں نے بھی منہ پھیر لیا ہے۔

یہ ہے ہمارے بزرگوں کی بے لوث انتھک خدمات کی حاصلات یا ان کے صدقہ جاریہ کردہ عوامل جن میں مادہ پرستی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ نبی پاکﷺ کے قائم کردہ انصار و مہاجرین کے نایاب رشتے کی عکاسی کردہ دور تھا، نجانے اب یہ قدریں کیوں ناپید ہو چلیں۔

Similar Posts