دسمبر،قربانیوں اور صبر کا مہینہ

دسمبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ غم اور قربانیوں کا مہینہ رہا ہے، قوم نے اپنی جانوں اور اپنے خوابوں کے ساتھ ساتھ بڑی قربانیاں دی ہیں۔ یہ مہینہ صرف تاریخ کے صفحات پر نقش نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں ایک یادگار کے طور پر زندہ ہے۔

دسمبر کے کچھ دن خون، درد، حوصلہ اور قربانی کی یاد دلاتے ہیں اور ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ وطن کی بقاء کے لیے صبر اور قربانی ہی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ قربانی صرف ایک لمحے کی بات نہیں بلکہ ایک مسلسل جذبہ ہے جو ہر فرد کو اپنے وطن کے لیے برقرار رکھنا چاہیے ۔

16 دسمبر 1971 وہ دن ہے جب پاکستان نے اپنی زمین کا ایک بڑا حصہ کھو دیا، یہ ایک عظیم انسانی المیے کا دن تھا، جس نے ہر پاکستانی کے دل کو غمزدہ کر دیا۔ اس سانحے کی جڑیں سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل میں گہری پیوست تھیں۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں، عوام میں احساس محرومی، اور سیاسی ناانصافی نے حالات کو مزید خراب کیا۔

1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی شاندار کامیابی کے باوجود مرکزی حکومت نے ان کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا، جس نے علیحدگی کی تحریک کو مزید شدت بخشی۔شہری اور دیہی علاقوں میں زراعت، صنعت اور تجارت بری طرح متاثر ہوئی۔

انسانی نقصان کے ساتھ ساتھ ملک کی بین الاقوامی ساکھ بھی شدید متاثر ہوئی۔ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک کمزور اور سیاسی بحران زدہ ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

یہ دن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سیاسی انصاف، سماجی ہم آہنگی، اور قومی اتحاد کے بغیر ملک کی بقاء ممکن نہیں۔

یہ کرب ناک شکست صرف ملک کا سیاسی نقصان نہیں تھی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی اس کے اثرات گہرے تھے۔

لاکھوں لوگ مہاجر بن کر مغربی پاکستان کی طرف آئے، خاندان ٹوٹ گئے، عورتیں اور بچے بے آسرا ہوئے، اور ہر طرف مایوسی اور خوف کا عالم پیدا ہو گیا۔ مگر اس المیے نے قوم کے دل میں وطن سے محبت، قربانی کے جذبے اور اتحاد کی ضرورت کو مزید مضبوط کیا۔

اس دن نے یہ سبق دیا کہ ملک کی بقاء کے لیے ہر فرد کو اپنے حقوق کے ساتھ فرائض بھی سمجھنا ہوں گے اور ہر مشکل کے سامنے حوصلہ اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے ایک اور المناک سانحہ پیش کیا۔ یہ دن ملک کے دل پر ایک اور زخم چھوڑ گیا۔

اس حملے میں 140 سے زائد معصوم بچوں نے اپنی جانیں گنوائیں اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ حملہ پوری قوم کے دل پر ایک بھاری دھچکا تھا۔

شدت پسندوں نے معصوم بچوں کی جانوں کو ضایع کر کے قوم کو دہشت اور خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔

اس سانحے نے والدین، اساتذہ اور معاشرتی امن پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ والدین کی دکھ بھری اور دلخراش چیخیں، معصوم بچوں کی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جانے والی مسکراہٹیں جو ہمیشہ کے لیے چھن گئیں، اور معاشرتی سکون کا ضیاع اس واقعے کو ناقابلِ فراموش بنا دیتا ہے۔

قوم میں شدید غصہ اور دکھ کی لہر دوڑ گئی اور ہر شہری نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی ضرورت محسوس کی۔ حکومت پر دباؤ بڑھ گیا اور نتیجتاً نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی، جس کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جامع اقدامات کیے گئے۔

اس سانحے نے ہمیں یہ سکھایا کہ حفاظت، شعور، اور حوصلہ ہی ملک کی بقاء اور ترقی کی ضمانت ہیں۔ ہر شہری کو اپنی ذمے داری کا احساس ہوا کہ وہ اپنی جان، اپنی تعلیم، اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے مستعد رہے۔

27 دسمبر 2007 کو پاکستان نے اپنی عظیم بیٹی اور جمہوریت کی علمبردار، محترمہ بے نظیر بھٹو کو کھو دیا۔ وہ نہ صرف پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں بلکہ ہمیشہ جمہوری اداروں کی بحالی، سیاسی شفافیت، اور عوام کی فلاح کے لیے سرگرم رہیں۔

ان کی شہادت نے نہ صرف سیاسی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ ملک میں جمہوری عمل کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ شدت پسندوں اور مخالفین نے ان کی عوامی حمایت اور جمہوریت کے فروغ کو خطرہ سمجھا اور انھیں موت کے گھاٹ اتارا۔

محترمہ بھٹو کی زندگی اور جدوجہد ہر پاکستانی کے لیے سبق آموز ہیں۔ انھوں نے ہر مشکل کا مقابلہ کیا، جمہوریت کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی، اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔

ان کی شہادت نے قوم کو یہ سبق دیا کہ جمہوریت کی حفاظت ہر فرد کی ذمے داری ہے اور عوامی حقوق کے لیے قربانی دینا ایک عظیم فرض ہے۔

ان کے جانے کے بعد ملک میں سیاسی انتشار بڑھ گیا، مگر ان کی جدوجہد اور قربانی نے عوام میں یہ شعور پیدا کیا کہ صرف خوف یا مشکلات سے نہیں بلکہ ثابت قدمی، حوصلے، اور عوامی اتحاد سے ہی ملک کی ترقی ممکن ہے۔

یہ تینوں واقعات ایک ساتھ دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دسمبر پاکستان کے لیے قربانی، صبر اور حوصلے کا مہینہ رہا ہے۔

1971 کی شکست نے ہمیں سیاسی یکجہتی کی ضرورت سکھائی، 2014 کا سانحہ دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحد ہونے کا سبق دیتا ہے، اور 2007 کی شہادت جمہوریت کی حفاظت کی اہمیت واضح کرتی ہے۔

یہ تینوں سانحات قوم کے دلوں میں درد کے ساتھ ساتھ سبق بھی چھوڑ گئے ہیں کہ وطن کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

قوم کو چاہیے کہ وہ ان عظیم قربانیوں کو یاد رکھے اور ملک کی ترقی، امن، اور خود مختاری کے لیے متحد ہو۔ حکومت، سیاست دانوں اور عوام کو مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ یہ قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔

تعلیم، شعور، اور سیاسی شفافیت وہ راستے ہیں جو پاکستان کو ہر خطرے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، اگر ہم ان قربانیوں کا حقیقی احترام کریں، ان کے سبق کو عملی زندگی میں اپنائیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور حوصلے کے ساتھ کھڑے رہیں تو پاکستان مضبوط، خودمختار اور مستحکم رہ سکتا ہے۔

Similar Posts