1973ء کا آئین اور 27ویں آئینی ترمیم

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ اف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

پاکستان میں آئینی سفر کی روداد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلا آئین، پاکستان کے قیام کے 9 سال بعد متفرق شقوں اور قرار دادوں کو شامل کر کے تشکیل دیا گیا۔

جسے 23 مارچ 1956 کو نافذ العمل کیا گیا۔لیکن یہ آئین 7 اکتوبر 1958 کو مارشلا لگائے جانے کے باعث صرف 2 سال 6 ماہ نافذ رہ سکا۔ اس کے بعد 1962 کا آئین لایا گیا جس میں جنرل ایوب خان نے اپنے مفادات کے مطابق صدارتی نظام حکومت متعارف کرایا اور لوکل باڈیز کے الیکٹورل کے ذریعے خو د کو صدر منتخب کرالیا۔ پاکستان کے قیام کے 52 سال گزرنے اور ملک کے دو لخت ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن کی مشاورت سے پارلیمنٹ نے ایک متفقہ آئین کی منظوری دی۔ یہ آئین کسی نہ کسی طرح آج تک موجود ہے، جس میں بدھ 12 نومبر 2025 کی شام سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 27 ویں آئینی ترمیم منظور کر نے کا عمل مکمل ہوگیا۔

قومی اسمبلی میں بھی سینیٹ کی طرح اسے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا۔ ترمیم کے حق می 234 جبکہ مخالفت میں جے یو آئی ف کے 4 اراکین نے ووٹ کاسٹ کئے ۔ تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن نے بحث کے دوران اس ترمیم کی مخالفت اور حزب اقتدار نے اس کا دفاع کیا۔ قومی اسمبلی میں اس ترمیم میں مزید 8 ترامیم کی گئیں ہیں۔4 شقیں حذف جبکہ 4 شقیں شامل کی گئیں ہیں۔جن کے تحت چیف جسٹس کا عہدہ برقرار رہے گا اور یحیی آفریدی اپنے ٹینیور تک چیف جسٹس رہیں گے۔ان کے بعد سینئر جج چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوں گے۔

اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب کر تے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی کی وفات پر تعزیت کی اور وانا کیڈٹ کالج میں فورسز کی کامیاب کاروائی کو سراہا جبکہ جوڈیشنل کملپلیکیس اسلام آباد میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والے افراد کے لوا حقین سے تعزیت کی اور ان واقعات میں انڈیا اور افغانستان کی مداخلت کا تذکرہ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے تمام اتحادیوں کا ترمیم کی منظوری پر تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ ترمیم اور آئینی عدالت کا قیام چارٹر آف ڈیموکریسی کی کامیابی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان یحیی آفریدی کے تعاون و مشاورت کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی نے پاکستان کو دنیا بھر میں سفارتی و دفاعی محاذ پر بہت عزت سے نوازا ہے۔اسی کامیابی کو recognize کرنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جرنل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا خطاب دیا اور اسے ترمیم میں آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔انہوں نے وفاق اور صوبائی اکائیوں کے اشتراک کو مضبوط کرنے کے عزم کو دہرایا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستانی افواج پورے پاکستان میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ان کی تنخواہوں کے اخراجات وفاق برداشت کرتا ہے۔میں صوبوں کو ان اخراجات میں contribute کرنے کے لئے میں صوبوں سے مل بیٹھ کر بات کروں گا۔

اس سے قبل سینیٹ نے 10 نومبر کو 27 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی ۔ ترمیم کے حق میں چونسٹھ جب کہ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔اپوزیشن نے ووٹنگ سیشن کا بائیکاٹ کیا۔اس اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔ اس سے قبل چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں سینیٹ میں اس بل پر شق وار ووٹنگ کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا۔

اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت ایوان میں موجود اراکین کی گنتی پوری کیے بغیر ووٹنگ کسں طر ح کر سکتی ہے۔ تاہم ووٹنگ کے اختتام پر چئیرمین سینیٹ نے نتیجے کا اعلان کر تے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری کے لیے پیش کی گئی قرادار کی حمایت میں چونسٹھ اراکین نے ووٹ دیا جب کہ اس کی مخالفت میں کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے بطور چئیرمین سینیٹ بھی اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ اس ووٹنگ کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علماء اسلام (ف)کے سینیٹر احمد خان نے بھی اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیے۔

بعد ازاں سیف اللہ ابڑو نے ایوان میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس سے قبل سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حالیہ جنگ میں بھارت کے خلاف پاک فوج اور خاص طور پر فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے کردار کی وجہ سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف اور جے یو آئی نے اپنے ان دونوں اراکین کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس بل کو انتہائی عجلت میں منظور کروایا ہے۔

پی ٹیآئی کے راہنما سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اتنی جلدی سے کی گئی آٓئینی ترمیم کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا آپ دباؤ کے ذریعے آئین کا نفاذ نہیں کر سکتے۔ تاہم سینیٹ میں قائد ایوان اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بل کی منظوری پر اراکین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اس پر اتفاق رائے اور ایوان میں بحث کے لیے تمام ضروری مراحل مکمل کیے گئے۔ چیئرمین سینیٹ نے بھی کہا کہ کسی بھی مرحلے پر ایوان کی کارروائی بلڈوز کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اس معاملے کے مختلف پہلوں کو زیر بحث لانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کے اہم نکات کیا ہیں؟

1. آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز بنانے کی تجویز

 2.فیلڈ مارشل جنرل اور صدر مملکت کے لیے تاحیات استثنیٰ

3.آئینی عدالت کا قیام

4.سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کا خاتمہ

5. ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلوں کا اختیار

27 ویں آئینی ترمیم کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما اور آئینی و قانونی امور کے ماہر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اس نئی آئینی ترمیم کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے مسودے کا سینیٹ میں پیش کیے جانے تک مخفی رکھا جانا ہے۔

 انہوں نے کہا اس آئینی ترمیم کا مسودہ پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا جب وزیر قانون نے اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سامنے پیش کرتے ہی اس کی خوبیاں گنوانا شروع کر دیں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ سارا غیر جمہوری طریقہ کار صرف چند افراد کو انتہائی با اختیار بنانے کے لیے اختیار کیا گیا۔ تاہم اعتزاز احسن کا کہنا تھا میں یقین دلاتا ہوں کہ ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم جو مخصوص افراد کے مفاد کا تحفظ کرے یا ایسا کوئی بھی قانون جو عوام سے مخفی رکھ کر منظور کیا جائے کبھی بھی دیرپا نہیں ہوسکتا۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا سب کو معلوم ہے کہ نہ ہی ن لیگ اور نہ ہی پی پی پی کبھی اس ترمیم کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کرے گی تو پھر ایسا کون کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پیر کے روز سینیٹ سے منظور کیے گئے آئینی ترمیم کے مسودے میں صدر مملکت کو بھی کسی فوجداری کارروائی سے تا حیات استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم اس شق میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور سرکاری عہدہ پر تعینات ہوتے ہیں تو پھر یہ استثنیٰ ختم تصور ہو گا۔

 اس سے قبل آئین کے تحت صدر اور صوبائی گورنرروں کو صرف ان کے عہدوں پر رہتے ہوئے کسی بھی فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا۔پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے حکومتی عہدیداروں کو تاحیات استثنیٰ دینا مناسب عمل نہیں ہے ان کے مطابق صدر، گورنر یا کسی بھی اہم ریاستی عہدیدار کو ان کی ملازمت کے دوران استثنیٰ دینا ایک الگ بات ہے جو کسی حد تک قابل فہم بھی ہے۔ لیکن انہیں تاحیات استثنیٰ دینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں اور نہ ہی مہذب دنیا میں اس کی کوئی مثال نظر آتی ہے۔ تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڈ نے صدر کے استثنیٰ کی تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں سربراہِ ریاست کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور ریاست کے سربراہ کو استثنیٰ دینے میں کوئی حرج نہیں۔

پارلیمنٹ ہاوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے استثنیٰ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی ہدایت پر اس سے متعلق تجویز کردہ شق واپس لے لی گئی ہے جس کو مختلف حلقوں کی طرف سے سراہا گیا ہے۔

ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودے کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائز پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کو تعینات کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیمی مسودے کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم ہو جائے گا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جو چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے اور نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تعلق بھی بری فوج سے ہو گا۔

احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ وہ ستائیسویں ترمیم کے اس حصے کو درست سمجھتے ہیں۔ان کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ رسمی تھا۔ اب اس کو ختم کر کے اگر ایک یونیفائیڈ کمانڈ بنا دی جائے تو یہ پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک بہتر فیصلہ ہو گا۔

 سینیٹ میں قانون وانصاف قائمہ کمیٹی کے چئیرمین اور پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ستائیسویں آئینی ترمیم سے متعلق آئینی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے متعلق شق میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت میں تمام صوبوں کے ججز شامل ہوں گے۔ ان کے مطابق ہائیکورٹ کا بھی آئینی کورٹ میں حصہ ہو گا۔ ہائیکورٹ کا جج بھی آئینی عدالت کے لیے نامزد کیا جائے گا- جس کے لیے کمیٹی نے کہا ہے اس کی اہلیت سات کے بجائے پانچ سال ہوگی۔

اس حوالے سے ممتاز ماہر قانون اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت جس انداز میں آئینی عدالت کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا مقصد آئین کا تحفظ نہیں بلکہ صرف اور صرف سپریم کورٹ کو سر نگوں کرنا ہے ان کے مطابق اب عملاً کوئی سپریم کورٹ نہیں رہے گی اور جس طرح سے ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کی بات کی جا رہی ہے اس سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں طوائف الملوکی پھیلے گی۔

ججوں کے تبادلوں کے اختیار کے حوالے سے 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایک ہائیکورٹ کے جج کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر کسی دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ اس مجوزہ ترمیم میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہائیکورٹ کا کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو سپریم جوڈیشل کونسل اس کے خلاف تیسں دن کے اندر کارروائی شروع کر دے گی۔

اس دوران یہ جج اپنے فرائض بھی ادا نہیں کر سکے گا-جسٹس اطہر من اللہ اور دیگر ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط کے ذریعے 27ویں آئینی ترمیم پر خدشات کا اظہار کیا ہے جبکہ وکلاء کی ایسوسی ایشنز نے بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم میں صدر اور فیلڈ مارشل جنرل دونوں کے لیے تاحیات استثنیٰ تجویز کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے لیے تجویز کردہ استثنیٰ لینے سے انکار کر دیا جس کو سراہا گیا ہے۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی، تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کی صوبوں سے وفاق کو واپسی اور این ایف سی میں صوبوں کے حصوں میں کمی سے متعلق ترامیم کو بھی ستائیسیوں آئینی ترمیم کا حصہ بنائے گی تاہم اپنی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مذکورہ شقوں پر عدم اتفاق کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔

چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر اتفاق رائے کے ساتھ حل کر لیا جائے اس پر کسی آئینی ترمیم کے لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ مختلف ادوار میں اپنے ذاتی مفادات کے تحت کی جانے والی بعض ترامیم نے 1973 کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔

جبکہ ہم پاکستانی آئین جسے 1973 کا آئین بھی کہا جاتا ہے کو قومی اہمیت کے پس منظر میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلی ترین دستاویز پاکستان کے قانون، سیاسی ثقافت اور نظام کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ریاست کا خاکہ، آبادی کے بنیادی حقوق، ریاست کے قوانین اور احکامات اور اداروں اور مسلح افواج کے ڈھانچے اور قیام کو بیان کرتی ہے۔ اس آئین کو ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا تھا اور اسے 10 اپریل کو 5ویں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا اور 14 اگست 1973 کو اسکی توثیق کی گئی۔

اس آئین کی منظوری نے ایک بازو کے علیحدہ ہونے کے صدمے سے دوچار شکستہ پاکستان کو سیاسی استحکام بخشا تھا۔اس کے پہلے تین ابواب حکومت کی تین اہم شعبوں قواعد، مینڈیٹ اور علیحدہ اختیارات پر مشتمل ہیں۔ ایک دو ایوانی مقننہ( ایوان بالا اور ایوان زیریں)۔ایک ایگزیکٹو برانچ جسے وزیر اعظم بطور چیف ایگزیکٹو چلاتے ہیں اور ایک اعلیٰ وفاقی عدلیہ جس کی سربراہی سپریم کورٹ کرتی ہے۔

آئین پاکستان صدر کو ریاست کے اتحاد کی نمائندگی کرنے والے رسمی سربراہ مملکت کے طور پر نامزد کرتا ہے۔ آئین کے پہلے چھ مضامین سیاسی نظام کو وفاقی پارلیمانی جمہوریہ کے نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں اور اسلام کو اس کا ریاستی مذہب بھی قرار دیتے ہیں۔ آئین میں قرآن اور سنت میں موجود اسلامی احکام کی تعمیل کے لیے قانونی نظام کی دفعات بھی شامل ہیں۔

پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے منافی یا اس کے خلاف ہو۔ تاہم آئین میں دو تہائی اکثریت سے دونوں ایوانوں میں ترمیم کی جا سکتی ہے جو 1956 اور 1962 کے دساتیر کے برعکس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ترامیم کی گئی ہیں اور حالیہ سیاسی اصلاحات اور اپ گریڈز کے لیے بھی ترامیم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کو آئین کی منظوری کا جشن یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کا 1973 کا آئین اپنی ترمیم شدہ شکل میں دنیا کا ساتواں طویل ترین آئین ہے جس میں 56,240 الفاظ ہیں۔

 1973 کے آئین کے آئینی سفر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے اس آئین کو 1973 میں اپنایا گیا اور 52 سال کے دوران اس میں 26 متنازعہ و غیر متنازعہ ترامیم کی گئی ہیں جو ملک کے جمہوری اور فوجی دور حکومت میں آئینی دفعات میں بدلاؤ کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس دوران آئین کے 270 مختلف آرٹیکلز میں تبدیلیاں کی گئیں۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق فوجی حکمران اور منتخب حکومتوں دونوں نے آئین میں ترامیم کیں۔ جنرل ضیاء الحق نے 97 ترامیم کیں جبکہ جنرل پرویز مشرف نے 37 ترامیم متعارف کروائیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 سے 1977 کے دوران سات ترامیم کیں۔ جن میں وفاق کے زیر انتظام علاقوں کا انضمام، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور عدالتی و سیاسی اصلاحات شامل تھیں۔

جنرل ضیاء الحق نے 1985 سے 1987 کے دوران تین بڑی ترامیم کے ذریعے مارشل لا کے تحت قوانین کو آئینی تحفظ دیا جبکہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے 1989 میں 11ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی مدت بڑھائی اور 1991 میں 12ویں ترمیم کے ذریعے خصوصی اور اپیلیٹ عدالتیں قائم کیں۔

نواز شریف کے دور میں 13ویں ترمیم کے تحت وزیراعظم کے اختیارات کو بحال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں منظور ہونے والی 18ویں ترمیم سب سے وسیع اصلاحات میں شامل ہے جس میں 102 دفعات میں تبدیلی کی گئی۔جس میں صوبائی خودمختاری میں اضافہ، صدر کے اختیارات محدود اور چیف الیکشن کمشنر و سروس چیفس کی تقرری کے طریقہ کار میں اصلاحات شامل تھیں۔

بعد ازاں عدلیہ کی تقرریوں، الیکشن کمیشن کے اختیارات اور دہشت گردی کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ 2024 میں منظور ہونے والی 26ویں ترمیم میں عدالتی اصلاحات، آئینی بینچز، عدالتی کونسل، ہائی کورٹ ججز کے تبادلے اور چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت کی حد شامل ہے۔

پاکستان کے آئین کی یہ 50 سالہ تاریخ جمہوریت کے ارتقا، ادارہ جاتی اصلاحات اور اختیارات کی کھینچا تانی کے درمیان توازن کے لئے مسلسل جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔

Similar Posts