ان چند ہزار نے جب جولیئس سیزر کے ساتھ روبیکن دریا عبور کیا تو ان کے قدموں کے عزم نے رومی سلطنت جیسی عظیم تاریخ رقم کی۔ وہ چند ہزار جب رحمتِ کائنات ﷺ کے ہمراہ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو ہر پتھر، ہر ذرہ ان کے قدموں کے نور سے جگمگا اٹھا۔ وہ چند ہزار جب جنگ یرموک میں خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں بازنطینیوں سے ٹکرائے تو تلواروں کی ٹکر اور دھول کے بادلوں میں یہ سبق چھپا ہوا تھا کہ فتح ہتھیار میں نہیں بلکہ دل میں موج زن جذبے میں چھپی ہوتی ہے۔
وہ چند ہزار ہی تھے جنہوں نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ حطین کے میدان میں یروشلم آزاد کرایا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ ایسے ہی چند ہزار محمد فاتح کے ساتھ مل کر قسطنطنیہ فتح کرنے والوں میں شامل ہوئے جنہوں نے بازنطینی سلطنت کا جنازہ نکال چھوڑا اور آنے والے چار سو سالوں تک خلافت عثمانی کا پرچم بلند کیے رکھا۔
وہ چند ہزار جب مارٹن لوتھر کے ساتھ کھڑے ہوئے تو کیتھولک کی مذہبی اجارہ داری زمین بوس کردی۔ وہی چند ہزار جب ہینری فورڈ اور تھامس ایڈیسن کے ساتھ متحد ہوئے تو صنعتی انقلاب کی گونج نے دنیا کو حیران کردیا۔ ایسے ہی چند ہزار جب چارلس ڈو، ایڈورڈ ڈی اور چارلس ایم کے ساتھ وال اسٹریٹ پر جمع ہوئے تو دنیا کی معیشت کی نبض اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ان چند ہزار جاپانیوں نے میجی بحالی کے تحت ایک غریب جزیرے کو اشیا کی عظیم طاقت میں بدل کر رکھ دیا اور ہر گلی، ہر کارخانے اور ہر ہاتھ کو محنت اور ہنر کی چمک سے بھر دیا۔
ایسے ہی چند ہزار لوگوں نے امید اور عزم کے چراغ روشن کرتے ہوئے مسلم لیگ اور قائداعظم کے ساتھ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ وہ چند ہزار جب ڈینگ شیاؤ پھنگ کے ساتھ متحد ہوئے تو دنیا نے چین کا معجزہ دیکھا جہاں ہر شہر، ہر کارخانہ، ہر سڑک ایک خواب کی حقیقت بن گئی۔ چند ہزار لوگوں نے رین زینگ کے ساتھ مل کر ایک عام سی کمپنی ہواوے کو عالمی عروج تک پہنچا دیا اور جدید ٹیکنالوجی نے ہر ذہن، ہر ہاتھ اور ہر آنکھ کو حیرت میں مبتلا کردیا۔
سوچیے کتنی طاقت ہے ان چند ہزار میں۔ اگر یہ چند ہزار پاکیزہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوں تو قومیں تعمیر کر سکتے ہیں، دنیا بدل سکتے ہیں اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے چند ہزار اگر برے ارادوں کے ساتھ جمع ہوجائیں تو تاریکی پھیلا سکتے ہیں تباہی مچا سکتے ہیں اور یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے جو ہر روز ہمارے اپنے ملک کی گلیوں، بازاروں، دفاتر اور نیوز ہیڈ لائنز میں اپنی تلخی کے ساتھ جھلکتی ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے گھروں، دفاتر، بازاروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ایک خوفناک سوال گونجتا ہے۔ کیا پاکستان میں مذہبی جنونیت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا؟ اکثر احباب کہتے ہیں کہ شدت پسندی نے خطرناک حدیں پار کرلی ہیں اور یہ زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور جب ہر روز خبروں میں مذہب کے نام پر قتل، علمائے کرام پر مقدمات اور ریاست کے خلاف نام نہاد جہاد کے اعلانات نظر آتے ہیں تو یہ خوف محض خیالی نہیں بلکہ حقیقت کا ننگا چہرہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خوف ناک حقیقت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کریں اور ہر نظریہ احتیاط سے پیش کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات کسی کے عقیدے یا سیاسی نظریے سے ٹکراؤ کا باعث بن جائے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود میرے خیال میں آج بھی معاشرے میں امید کی یہ کرن زندہ ہے کہ ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن سے کوسوں دور ہیں اور ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے پوری طرح نہیں نکلا۔ عوامی سطح پر نظر ڈالیں تو یہ معاشرہ مجموعی طور پر انتہاپسندی سے آزاد ہے۔ سڑک پر نکلیں، مختلف لوگ جن میں غریب و امیر، مرد و عورت، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب شامل ہوں اور آپ ان سے بات کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثریت مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہے۔ لوگ اپنے دین سے محبت کرتے ہیں مگر وہ جنونی نہیں ہیں۔ یقیناً کچھ سخت نظریات رکھنے والے ملیں گے مگر وہ اقلیت میں ہیں جن کا شمار آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔
اب ریاستی زاویے سے دیکھیں۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں غیر مذہبی شناخت رکھتی ہیں اور عوام نے ہمیشہ مذہب کے بجائے اپنے مسائل، قیادت اور روزگار کی بنیاد پر ووٹ دیا۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں بھی مذہبی شدت پسندی نے جڑ نہیں پکڑی۔ ہاں انفرادی سطح پر ان اداروں میں کچھ لوگ موجود ہوسکتے ہیں مگر مجموعی طور پر اکثریت توازن پسند اور حقیقت پرست ہے۔
معاشرتی رویے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہماری اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں انتہاپسندی سے دور ہے۔ ہمارا معاشرہ نہ مغرب جیسا مکمل آزاد ہے نہ ہی افغانستان جتنا سخت اور تنگ نظر۔ ہم اپنے دین سے محبت کرتے ہیں، نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، عمرہ و حج ادا کرتے ہیں مگر زندگی کی خوشیوں سے لطف اٹھانے میں کوئی کمی نہیں دکھاتے ہیں۔ خواہشات رکھتے ہیں اور ایک نارمل زندگی جینا چاہتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر شدت پسندی بڑھ کیوں رہی ہے؟ وجہ دراصل بہت سادہ ہے۔ برسوں سے مذہبی گروہوں کو مختلف مصلحتوں کے تحت کھلی چھوٹ دی گئی اور اسی کھلی چھوٹ نے ان مذہبی گروہوں میں طاقت کی بھوک میں مبتلا کچھ افراد کو اثرورسوخ کی ہوس میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے فرقوں کے درمیان موجود صدیوں پرانے اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اسے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کا موقع بنالیا۔
فرقہ پرستی ہمارے معاشرے کا کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ برصغیر میں یہ صدیوں پرانا مسئلہ ہے جو آج بھی خطے کے لوگوں کو نسلوں سے تقسیم کر کے رکھے ہوئے ہے۔ کچھ دنیا پرستوں کو چھوڑ کر عام لوگ آج بھی اس تقسیم کے باوجود محض اللّہ اور اس کے نبی ﷺ کی محبت میں ایک دوسرے کے لیے حد میں رہتے ہوئے نرمی یا فاصلے محسوس کرتے ہیں لیکن مطالعاتی کمی اور تحقیق کے رجحان سے عدم دل چسپی نے کچھ شرپسند افراد کے لیے اس تقسیم کو ایک نادر موقع میں تبدیل کردیا۔
یہ لوگ اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے اسلام کے تشخص، حدیث اور تاریخی واقعات میں من گھڑت کہانیاں گھڑ کر عام لوگوں کے جذبات کو مہمیز دیتے ہیں اور عام سادہ لو لوگوں کی اسلام سے محبت کو غلط سمت میں استعمال کرتے ہیں یوں حقیقت کا رخ بدل کر عام لوگوں کے عقائد اور جذبات کو اشتعال انگیز بنایا جاتا ہے اور شدت پسندی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اپنے ان اعمال کے دفاع کو مذہب کی حرمت سے جوڑ کر اپنے دنیاوی اہداف کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے نے اپنے دور میں مذہب یا نسل کے نام پر جنونیت کا زہر چکھا ہے۔ امریکہ میں کو کلس کلان جیسی خفیہ تنظیم نے سفید فام برتری کے نام پر سیاہ فاموں پر ظلم ڈھائے۔ یورپ میں ’’نیو نازی ازم‘‘ نے نسل پرستی کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ سربیا میں ارباز ملیشیا، جنوبی یورپ میں ابھرنے والی بے شمار انتہاپسند تنظیمیں، جاپان میں نیشنل سوشلسٹ جاپانیز ورکرز پارٹی اور بھارت میں آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی، سب نے مذہب یا نسل کے نام پر نفرت کا کاروبار کیا۔
فرق صرف یہ ہے کہ بھارت کو چھوڑ کر ان ممالک نے آخرکار ان گروہوں کو ریاستی طاقت سے قابو کیا۔ وہاں ریاست نے کوئی مصلحت نہیں دکھائی بلکہ قانون حرکت میں آیا۔ انتہا پسند قتل و غارت میں ملوث تھے تو انہیں پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں، کئی کو عمر قید ہوئی اور ان کی تنظیموں پر مکمل پابندیاں عائد کی گئیں۔ پارلیمان نے ایسی ملیشیاؤں کے خلاف واضح قانون سازی کی اور ان کے جلسے جلوس اور نفرت انگیز تقاریر سب جرم قرار پائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ریاست نے مذہب، رنگ و نسل کے نام پر گندی سیاست کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر معاشرے کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دیا۔ وہاں نفرت کو رائے نہیں، جرم سمجھا گیا اور یہی وجہ تھی ہے کہ وہاں ریاست جیت گئی۔
پاکستان میں ریاست کی مصلحت آمیز خاموشی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ جہاں محض وقتی سیاسی فوائد کے لیے بعض جماعتوں کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کرنا انہیں وہ موقع فراہم کرگیا جس کا فائدہ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اٹھایا۔ آج جب اُن کی کارروائیاں حد سے بڑھ گئیں تو قابو پانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ جماعتیں پارلیمنٹ تک پہنچ گئیں، ان کے راہ نما بغاوت کے فتوے جاری کرتے رہے اور ریاست اکثر خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے مگر اس حق کو استعمال کرنے کے لیے آئین پاکستان کچھ فرائض پر بھی توجہ دلواتا ہے مگر جب اسی جماعت کے بیانات اور کارروائیوں سے براہِ راست یا بلاواسطہ جڑے حادثات گننے شروع کیے جائیں تو حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں ایسی انتہاپسند جماعتوں میں سے ایک کے کارکنوں کے ریکارڈ میں وینڈلزم، موب جسٹس، لنچنگ، گلیوں میں گھسیٹنا، لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات درج ہیں اور اس دوران براہِ راست یا بالواسطہ طور پر قومی خزانے کو تقریباً پینتیس ارب روپے کا خسارہ بھی پہنچا۔ سیالکوٹ فیکٹری کا واقعہ ہو یا اقلیتوں خاص طور پر عیسائی آبادی کو نذرِ آتش کیا جانا ہو یا اُن کے خلاف منظم تشدد ہو تو سوال اٹھتا ہے کیا انہیں ایک جمہوری سیاسی جماعت سمجھنا درست ہے یا انہیں ایک مسلح جتھے کی فہرست میں رکھنا چاہیے؟
جس آئین پاکستان کو یہ لوگ اپنے احتجاج کے حق میں بطور دلیل استعمال کرتے ہیں اسی آئین کے آرٹیکل دو سو چھپن میں صاف لکھا ہے کہ کوئی بھی نجی تنظیم جو فوجی تنظیم کی شکل میں کام کرے گی اسے بنانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسی تنظیم غیرقانونی سمجھی جائے گی۔ دنیا بھر میں جب کوئی تنظیم عوام کی جان و مال چھیننے لگتی ہے، قتل و غارت کرتی ہے اور ریاست کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو ریاست کا فرض مؤثر اور بروقت اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہم نے کیونکر اتنی دیر کر دی کہ اب قدم اٹھانا دشوار سا محسوس ہو رہا ہے؟
اس انتہاپسندی کا ایک سبب وہ لوگ بھی ہیں جو خود کو ترقی پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں مگر ایسے گروہوں کے حق میں احتجاج کے نام پر دلیلیں دیتے نہیں تھکتے۔ ان خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ کبھی اُن گھروں تک جائیں جہاں ان کے اس جمہوری حق احتجاج کے نتیجے میں لاشیں جلیں، بچوں کے باپ مارے گئے یا ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔ وہاں جا کر انہیں بتائیں کہ قاتل دراصل دینی یا سیاسی کارکن تھے جو صرف احتجاج کر رہے تھے۔ شاید تب انہیں اندازہ ہو کہ فلسفے اور فریب کے درمیان لکیر کتنی باریک ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شدت پسند کسی بحث یا منطق کے اہل ہی نہیں۔ وہ دلیل کو نہیں صرف آواز کو طاقت سے دباتے ہیں۔ وہ سوال کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں اور جب بحث ختم ہوجائے تو نعرہ لگتا ہے، تشدد بولتا ہے اور لاشیں گرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی نہیں روکنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ خود اسی آزادی کو ختم کرنے اٹھتے ہیں جس کے سائے میں ان کو بولنے کی اجازت ملتی ہے۔ جو شخص ان کے حقوق کی بات کرتا ہے وہ دراصل مذہب نہیں بلکہ بدنظمی کا حامی ہے۔ ان کے سیاسی حقوق وہی ہیں جو ٹی ٹی پی، طالبان یا بوکو حرام جیسے گروہوں کے ہو سکتے ہیں یعنی صرف انصاف کا کٹہرا۔
ریاست اگر چاہے تو ان کا زور چند سالوں میں ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ریاست واقعی ایسا چاہتی بھی ہے؟ اصل زخم قیادت کا ہے وہ ڈرتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں جرأت کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے۔ کسی کو ووٹ کا خوف ہے، کسی کو فتوے کا اور یوں ریاست، ایک زندہ وجود ہونے کے بجائے کاغذی اعلانات، وقتی پابندیوں اور سیاسی بیانوں کے خول میں جیسے پھنس کر رہ گئی ہے۔ کسی گروہ پر پابندی لگا دینا بہت آسان ہے مگر نظریہ پابندی سے خاطرخواہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ زمین کے نیچے بھی سانس لیتا رہتا ہے۔ لہذا اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس سے ہم کتراتے ہیں۔
اب ہمیں ایک متحد، واضح اور بے خوف بیانیہ اپنانا ہوگا۔ ایسا بیانیہ جو سیاست داں کے نفع نقصان سے نہیں، ریاست کے ضمیر سے نکلے۔ یہ لڑائی نعرے سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ٹھوس، مسلسل اور بے لاگ حکمتِ عملی چاہیے۔ ایسی حکمتِ عملی جو چار سمتوں میں پھیلی ہو۔ جو معاشی انصاف پر مبنی ہو تاکہ غربت کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کے ہاتھوں جذباتی غلامی میں نہ بدلے، جس کی بنیاد شفاف سیاست پر ہو تاکہ جھوٹا سیاسی و مذہبی لبادہ ووٹ کے لیے استعمال نہ ہو۔ جہاں قانون کی بالادستی ہو تاکہ نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے مرتکب افراد کسی سیاسی آشیرباد سے بچ نہ سکیں اور جہاں معاشرتی اصلاح کی طرف سفر کی سمت طے ہو سکے تاکہ جہالت کا وہ ایندھن ختم ہو جو انتہاپسندی کو زندہ رکھتا ہے۔
ساتھ ہی ہمیں منبر و محراب پر بیٹھے معتدل آوازوں کو آگے لانا ہوگا تاکہ وہ شدت پسندی کے شور میں ہوش کی بات کر سکیں۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں صرف سوشل میڈیا کا مائیک نہیں بلکہ علم، شعور، روزگار اور سمت دینے کا انتظام بھی کرنا پڑے گا ورنہ وہی ہاتھ جو آج نعرے لگاتے ہیں کل پتھر بھی اٹھا سکتے ہیں۔
یہ لڑائی آسان نہیں۔ اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہم ہمیشہ ہارے ہیں۔ یہاں ماضی کے منافع خور موجود ہیں، وہی چہرے، وہی مفادات۔ مگر اب فیصلہ جرأت کا ہے۔ ریاست اگر چاہے تو آج بھی وہی کرسکتی ہے جو کل اس نے سنی اور شیعہ کے درمیان فاصلوں کو کم کر کے کیا تھا۔ شرط صرف عزم ہے، وہ عزم جو ووٹ کی لالچ میں نہیں بلکہ ضمیر کی آواز سے جنم لیتا ہے۔
یہ معرکہ سیاسی نہیں وجودی ہے۔ یہ ہمارے بچوں، ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور ہمارے خوابوں کا سوال ہے۔