جہاں پہلے سے قائم شوگر ملز کی بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت کے ساتھ رحیم یارخان سے ملحقہ سندھ بارڈر پر بھی نئی شوگر ملوں کا قیام تسلسل سے جاری ہے۔
ملک کی شوگر ملوں کی مجموعی میں پیداواری صلاحیت کاتقریبا 40 فیصد پیداوارصرف رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ بارڈرمیں قائم شوگر ملوں کا حصہ ہے۔
یہ بات چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ گنے کی کاشت میں غیر معمولی اضافے سے لاکھوں ملین ایکڑ پانی کے ضیاع اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے لاکھوں ایکڑزمینیں بھی بنجر ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
احسان الحق نے بتایا کہ چند سال قبل تک عالمی سطح پرکپاس کی پیداوار میں پاکستان چوتھا سرفہرست ملک کے طور پر ہوتا تھا لیکن کراپ زوننگ قوانین پر عمل درآمد کے فقدان سے مقامی کاٹن زونز میں نئی شوگر ملوں کے قیام اور پہلے سے قائم شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں ریکارڈ اضافے کے رحجان سے گنے کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیاہے۔
جس سے پاکستان میں کپاس کی مجموعی پیداور جو سال 2014-15 میں ایک کروڑ 50لاکھ گانٹھوں پر مشتمل تھی، اب سال 2024-25 میں گھٹ کر صرف 55 لاکھ گانٹھ تک محدود ہوگئی ہے،جبکہ گنے کی بڑھتی ہوئی پیداواری سرگرمیوں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے باعث کپاس کامعیار بھی متاثر ہوگیاہے۔
جس سے ٹیکسٹائل ملوں کو اپنے برآمدی معاہدوں کی تکمیل کیلیے معیاری روئی کیلیے درآمدات پر انحصار کرناپڑ رہاہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع رحیم یار خان میں اس وقت 6 شوگر ملز قائم ہیں، جن کی یومیہ پیداواری صلاحیت ایک لاکھ 35ہزار ٹن میٹرک ٹن ہے جو کسی بھی ایک ضلع میں سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت ہے۔
انہوں نے بتایاکہ رحیم یار خان میں پہلے سے قائم دو بڑے شوگر ملوں کے گروپ کوضلع میں مزید شوگر ملز قائم کرنے کی اجازت نہ ملنے پر انہوں نے ملحقہ سندھ پنجاب بارڈر پر 2 نئی شوگر ملز قائم کرلیں، جن کی یومیہ پیداواری صلاحیت باالترتیب 16 ہزار اور 19ہزار ٹن ہے۔
ان عوامل کے باعث رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کپاس کی کاشت میں مزید کمی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔