یادوں کا شہر لندن

مانچسٹر کی سرد ہواؤں سے نکل کر لندن کا رخ کیا ، وہی لندن جو سیاحوں کا محبوب ترین شہر ہے۔ لندن سے جدائی کو آٹھ برس بیت چکے تھے۔ ہم بھی لندن کے رومانس میں مبتلا رہے ۔ اس مرتبہ سفر کا ارادہ پختہ تھا اور خوشی اس بات کی کہ ہم سفر بھی نہایت مہربان اور خوش مزاج تھے، عبداللہ حفیظ خان اور ذوالقرنین مہدی۔ ان دونوں کی خوش گپیوں نے مانچسٹر سے لندن کا فاصلہ پل بھر میں سمیٹ دیا۔ جونہی گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں رکی معلوم ہوا کہ لندن ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

صبح سویرے ناشتے کے بعد عبداللہ حفیظ خان کی معیت میں لندن کی زیرِ زمین مشہور زمانہ ٹرین ٹیوب کا رخ کیا اور پکاڈلی سرکس جا پہنچے۔ پکاڈلی سے ٹہلتے ہوئے ٹرافلگر اسکوائر کی جانب بڑھے۔ یہاں کی چہل پہل، عمارتوں کی شان اور لوگوں کا تنوع دیکھ کر احساس ہوا کہ لندن واقعی دنیا کا ایسا چوراہا ہے جہاں ہر رنگ، ہر زبان اور ہر ثقافت کی گونج سنائی دیتی ہے۔

ٹرافلگر کے بعد دریائے ٹیمز کے کنارے پہنچے تو دریا کا مدھم بہاؤ اور اس کے اردگرد ایستادہ پرشکوہ عمارتیں دیکھ کر دل مسحور ہو گیا۔ برطانوی پارلیمان کی عمارت، بگ بین اور وکٹوریہ دور کے دوسرے حیرت انگیز آثارسبھی تاریخ کا ایک زندہ عجائب گھر محسوس ہوتے ہیں۔اسی راستے پر چلتے چلتے ہم بکنگھم پیلس جا پہنچے۔ اس محل کے مقیم وہی ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تاجِ برطانیہ کی چھتری کے سائے میں صدیوں تک مشرق و مغرب پر حکمرانی کی۔ ہندوستان، آسٹریلیا، کینیڈا دنیا کے وہ علاقے جہاں کبھی نہ کبھی سورج ضرور چمکتا تھا اور اسی لیے کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ آج بھی اس محل کے مکیں ماضی کی انھی خوشگوار یادوں کے سہارے زندگی گزر رہے ہیں۔

مرکزی لندن میں قدم قدم پر سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فون تھامے تاریخی عمارتوں کی تصویریں اتار رہا ہوتا ہے تو کوئی آکسفورڈ اسٹریٹ کے مصروف بازاروں میں کھویا ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے برانڈ کا اسٹور یہاں موجود ہے اور اگر جیب اجازت دے تو خریداری کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ آکسفورڈ اسٹریٹ سے ذرا آگے بڑھیں تو مشہور ہیروڈز اسٹور بھی واقع ہے جو امراء کی دنیا ہے۔ البتہ ہم جیسے مڈل کلاسیئے یہاں ایک اچھی کافی پی کر دل خوش کر لیتے ہیں۔اس کے قریب ہی ہمارا سفارت خانہ ہے جہاں ایک تقریب میں ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل سے ملاقات ہوئی۔

انھیں پی آئی اے کی جانب سے اعزازی شیلڈ پیش کی گئی کیونکہ برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی میں ان کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ وہیں علی اعوان سے بھی ملاقات ہوئی جنھیں لندن میں مقیم ہمارے صحافی دوست ایک نہایت فعال پریس منسٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کی خوش اخلاقی اورخوش مزاجی کے متعلق جیسا سن رکھا تھا ویسا ہی پایا۔

لندن ایک عجیب سا شہر ہے۔ یہاں انسان کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ چاہے دس برس بعد آئیں یا دس بار آئیں لندن آپ کا استقبال کھلے بازوؤں سے کرتا ہے۔ اس کے در و دیوار آج بھی ویسے ہی دکھتے ہیں جیسے برسوں پہلے تھے۔ نہ بدانتظامی، نہ بے ہنگم تعمیر ، یہ شہر جدید بھی ہے اور پرانے حسن کا امین بھی ہے۔ انھی دنوں لندن میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ ایکسپو جاری تھی ، دنیا میں سیاحت سے متعلق سب سے بڑا میلہ یہی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک نے اپنے اپنے اسٹال سجائے ہوئے تھے۔ رنگ، روشنی، آڈیو ویژول ڈسپلے، روایتی ملبوسات، دستکاری ہر چیز اس بات کی دلیل تھی کہ دنیا اپنی سیاحت پر کس قدر توجہ دے رہی ہے۔ انھی چھوٹے بڑے اسٹالوں کے درمیان پاکستان کا ایک سادہ سا اسٹال بھی موجود تھا جہاں ہمارے سیاحت کے نمایندے پاکستان کے خوبصورت مقامات وادی ہنزہ، سوات، شنگریلا، قراقرم ہائی وے کی تشہیر کرتے دکھائی دیے۔ مگر سچ یہ ہے کہ عالمی میلوں میں پاکستان کی موجودگی اس شان و شوکت کی حامل نہیں، جو ہونی چاہیے تھی۔ پڑوسی ملک کے بڑے اور جدید اسٹال کو دیکھ کر دل میں کسک پیدا ہوئی کہ اگر ہمارے اداروں کی سرپرستی مضبوط ہو تو پاکستان کی سیاحت دنیا کو خیرہ کر سکتی ہے۔

لندن آ کر صحافتی دوستوں سے ملے بغیر واپسی ممکن ہی نہیں۔ غلام حسین، شوکت ڈار اور آصف سلیم مٹھا۔سبھی نے محبت بھرے انداز میں دعوتیں دیں۔ مٹھا صاحب کا والد محترم سے پرانا تعلق تھا جو وہ آج تک نبھا رہے ہیں۔ غلام حسین نے اپنے لندنی ڈیرے پر ایسی پرتکلف محفل سجائی کہ رات ڈھلتے دیر نہ لگی۔

لیکن یہاں دفتر کی غیر حاضری بڑی مشکل سے معاف ہوتی ہے، اس لیے بادل نخواستہ محفل برخاست کرنا پڑی۔لندن میں ہر شہر، ہر ضلع اور ہر علاقے کا کوئی نہ کوئی پاکستانی ضرور ملتا ہے۔ برسوں بعد اپنے دیرینہ دوست ساجد تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تو ہمیں اسٹیشن سے پک کیا اور واپس اسی اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔ یہی اصل پاکستانی محبت ہے جو پردیس میں مزید گہری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وادی سون کے ہمارے دوست نصیر ملک سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے علاقہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے قدم قدم پر ساتھ رکھا، لندن گھمایا اور ذائقے دار کھانے کھلائے۔

مدعا یہ ہے کہ لندن کی ہوا میں ایک سکون ضرور ہے لیکن یہاں مقیم پاکستانی دل سے اپنے وطن سے جڑے رہتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات پر فکر مندی ضرور ہے مگر ناامیدی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات ضرور بدلیں گے بس ہمارے اربابِ اختیار کو دل تھوڑا وسیع کرنا ہوگا۔

Similar Posts