کئی دہائیوں سے سائنس داں کائنات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی بصیرتوں کا استعمال کرتے وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری کائنات کے آغاز میں کیا ہوا تھا۔ وہ اتنی دور دراز کہکشاؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کی روشنی زمین تک پہنچنے میں اربوں سال لگتے ہیں۔ یوں وہ دراصل وقت میں پیچھے دیکھتے ہیں جب کائنات اپنی شیر خوار حالت میں تھی۔
افسوس ماضی میں پیچھے دیکھنے کی بھی ایک حد ہے۔ ستارے کائنات بننے کے چند لاکھ سال بعد ہی چمکنا شروع ہوئے ۔ ہم جتنا پیچھے جائیں، اتنا ہی اولیّں ستاروں کے آثار اْن پھٹتے ہوئے فلکیاتی اجسام اور ٹکراتی کہکشاؤں نے مٹا دیے جو بعد میں وجود میں آئیں۔مزید پیچھے جائیں تو بگ بینگ تمام نشان غائب کر دیتا ہے … وہ عظیم وقوعہ جس سے سمجھا جاتا ہے کہ ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔
لہٰذا وقت میں پیچھے دیکھنے کے بجائے شاید جوابات آگے دیکھنے سے مل سکیں۔ اگر ہم کائنات کا انجام سمجھ لیں، تو کیا ہم اس کے آغاز کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں؟امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ہنری ٹائے اْن نظریاتی طبیعیات دانوں میں شامل ہیں جو ہماری کائنات کی آخری تقدیر کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کائنات کے جدید ترین مشاہدات کی مدد سے ٹائے اور اْن کی ٹیم نے کائنات کے تفصیلی ماڈل تیار کیے ہیں۔ پھر وہ وقت کو اربوں سال آگے چلاتے ہیں تاکہ جان سکیں، کائنات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔
یہ سمیولیشنز یا ماڈل بگ بینگ سے شروع ہوتے ہیں جس نے 13.8 ارب سال پہلے کائنات کا آغاز کیا۔ موجودہ سائنسی سمجھ کے مطابق تب سے خلا پھیل رہا اور کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور لے جا رہا ہے۔ ابتدا میں ماہرینِ فلکیات کا خیال تھا کہ یہ پھیلاؤ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں دو ممکنہ انجام سامنے آئے۔
پہلا منظرنامہ یہ کہ آخرکار کائنات کا پھیلاؤ اتنا سست ہو جائے گا کہ وہ ہر چیز کو کھینچ کر یکجا کرنے والی کششِ ثقل سے شکست کھا جائے ۔ تب پھیلاؤ الٹنا شروع ہوگا اور کائنات سکڑتے سکڑتے واپس ایک عظیم دباؤ میں سمٹ جائے گی جیسے کہ بگ بینگ سے قبل تھی۔ یہ نظریہ’’ بگ کرنچ ‘‘(Big Crunch)کہلاتا ہے۔
دوسرا منظرنامہ یہ کہ پھیلاؤ کائنات کو اتنا دور تک پھیلا دے گا کہ کششِ ثقل کبھی اسے روک نہ سکے۔ مادہ اور توانائی ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوتے اتنے بکھر جائیں گے کہ وہ ستاروں یا کہکشاؤں کی تشکیل بھی نہ کر سکیں گے۔ یوں کائنات ایک بڑے ابدی جمود ’’ بگ فریز‘‘ (Big Freeze) میں داخل ہو جائے گی۔
1990ء کی دہائی کے آخر میں فلکیات دانوں نے یہ دریافت کیا کہ سست ہونے کے بجائے ہماری کائنات کا پھیلاؤ درحقیقت تیز ہو رہا ہے۔ کوئی ایسی چیز تھی جو کائنات کو پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلا رہی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ وہ چیز کیا ہے، سائنس دانوں نے اس کو’’سیاہ توانائی‘‘ (Dark Energy) کا نام دیا۔ٹائے کہتے ہیں ’’آج ہماری کائنات کا تقریباً 70 فیصد حصہ سیاہ توانائی پر مشتمل ہے۔‘‘
ماہرینِ کاسمولوجی کو پوری طرح معلوم نہیں کہ سیاہ توانائی اصل میں ہے کیا، لیکن غالب نظریہ یہ ہے کہ اس کا تعلق خلا کی کسی بنیادی خاصیت سے ہے۔ وہ سیاہ توانائی کو کائنات کی مساوات میں شامل کرنے کے لیے ’’’کاسمولوجیکل کانسٹنٹ‘‘ (Cosmological Constant) استعمال کرتے ہیں … ایسی توانائی سے متعلق ایک تصّور جو خلا میں اْس وقت بھی موجود ہوتی ہے جب وہ بظاہر بالکل خالی دکھائی دے۔
لیکن بڑھتے شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ شاید کوئی اور چیز بھی کام کر رہی ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ سائنس دانوں کا خیال تھا ، کاسمولوجیکل کانسٹنٹ واقعی ’’مستقل‘‘ ہے۔ اگر ایسا ہوتا، تو سیاہ توانائی کے اثرات پوری کائناتی تاریخ میں ایک جیسے رہتے مگر نئے مشاہدات اس کے برعکس کچھ بتا رہے ہیں۔ دو منصوبے : ڈارک انرجی سروے (DES) اور ڈارک انرجی اسپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ (DESI) نے کئی سال تک لاکھوں کہکشاؤں کی پوزیشن ناپ کر کائنات کا تفصیلی تھری ڈی نقشہ بنایا ہے۔ فلکیات دان یہ نقشے استعمال کرکے ان نشانات کی تلاش میں ہیں جو سیاہ توانائی چھوڑ سکتی ہے۔
دونوں سروے بتاتے ہیں کہ سیاہ توانائی وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو کاسمولوجیکل کانسٹنٹ اتنا مستقل نہیں جتنا ہم سمجھتے تھے یا پھر کوئی اور چیز بھی کائنات کے پھیلاؤ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
کاسمولوجی کا الٹ پھیر
سیاہ توانائی کی حقیقت جاننے کے لیے ٹائے اور اْن کے ساتھیوں نے DES اور DESI کے نتائج استعمال کرتے ہوئے ایک نئی تھیوری پیش کی ہے…یہ کہ ایک ذرہ جسے ’ایکسیون‘ (Axion)کہا جاتا ہے، وہ بھی کائنات کے پھیلاؤ کا ذمے دار ہے۔ٹائے کہتے ہیں’’سب سے آسان بات یہ فرض کرنا ہے کہ سیاہ توانائی مکمل طور پر کاسمولوجیکل کانسٹنٹ سے متعلق ہے مگر شواہد دکھاتے ہیں، معاملہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔‘‘
ایکسیون اب تک نظریاتی ذرہ ہے کیونکہ وہ عام مادے کے ساتھ صرف کششِ ثقل کے ذریعے تعامل کرتا ہے، اس لیے ان ذروں کو تجربہ گاہ میں پکڑنا انتہائی مشکل ہے۔کائنات کے ابتدائی دور میں ایکسیون غالب عنصر تھے۔ مگر جیسے جیسے خلا پھیلتا گیا، یہ ایکسیون بکھرتے گئے اور اْن کا اثر کم ہوتا گیا ۔ یہی وجہ ہے ، سیاہ توانائی وقت کے ساتھ بدلتی محسوس ہوتی ہے۔
اسی دوران کاسمولوجیکل کانسٹنٹ کا تصّور بھی بالکل الٹ گیا ہے۔ زیادہ تر موجودہ نظریات میں یہ کانسٹنٹ مثبت ہے، یعنی یہ کائنات کو پھیلاتا ہے۔ مگر ٹائے کی ٹیم تجویز کرتی ہے کہ یہ دراصل منفی ہے اور سب کچھ دوبارہ اکٹھا کرنیکی کوشش کر رہا ہے۔ ٹیم کی رو سے بالآخر جب ایکسیون اتنے پھیل جائیں گے کہ مزید غالب نہ رہیں تب کاسمولوجیکل کانسٹنٹ اپنا اثر دکھانا شروع کرکے ہر چیز (کہکشائیں، ستارے، سیارے) واپس سمیٹنے لگے گا۔
امریکی تحقیقی ادارے،ڈونوسٹیا انٹرنیشنل فزکس سینٹر کے ڈاکٹر ہوآنگ نان جو اس تحقیق کا حصہ تھے، کہتے ہیں:’’ہماری تھیوری کے مطابق کائنات کا پھیلاؤ ابھی تیز ہو رہا ہے۔ کائنات کا پھیلاؤ تب ہی سست پڑے گا جب نام نہاد ’کرنچنگ‘ مرحلہ شروع ہوگا۔ اندازے کے مطابق ایسا تقریباً اگلے 11 ارب سال میں ہو سکتا ہے جس کے تقریباً آٹھ ارب سال بعد بگ کرنچ ہوگا۔بدقسمتی سے ہمارا ماڈل یہ پیشگوئی نہیں کر سکتا کہ کائنات کے سکڑنے کے بعد کیا ہوگا۔‘‘
مسئلہ یہ ہے کہ جب سب کچھ دوبارہ ایک دوسرے میں سمٹنے لگتا ہے تو کوانٹم میکانکس کی عجیب و غریب دنیا اتنی ہی اہم ہو جاتی ہے جتنی کششِ ثقل اور اضافیت کے قوانین۔کوانٹم قوانین چھوٹے ترین پیمانے پر چیزوں کی وضاحت بخوبی کرتے ہیں، جبکہ کششِ ثقل بڑے پیمانے کی کائنات کو بیان کرتی ہے۔ عام حالات میں دونوں کے دائرے ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ نایاب موقع آتا ہے کہ کششِ ثقل اور کوانٹم ،دونوں قوانین بیک وقت لاگو ہوتے ہیں … اور طبیعیات دان آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان دونوں کو کیسے یکجا کیا جائے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، وہ یہ نہیں جان سکتے کہ کائنات کے ساتھ آگے کیا ہوگا۔
فی الحال ہم یہ جانتے ہیںکہ جب آخری بار سب کچھ ایک جگہ اکٹھا تھا، تب بگ بینگ ہوا تھا۔(قران پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے قبل سب کچھ یکجا تھا) کچھ کاسمولوجسٹ تجویز کرتے ہیں کہ بگ کرنچ کے بعد دوبارہ ایک بگ بینگ ہو سکتا ہے اور جسے انھوں نے بگ باؤنس (Big Bounce)کہا ہے
اس نظریے کی رو سے کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔وہ دھماکے سے شروع ہوتی ، پھیلتی اور پھر سکڑ جاتی ہے۔ یوں وہ بار بار جنم لیتی ہے۔بگ باؤنس ایک پْرکشش نظریہ ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہماری کائنات کے انجام کی وضاحت کرتا بلکہ اس کے آغاز کی ممکنہ وجہ بھی سامنے لاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے، ہم شاید کبھی یقینی طور پر نہ جان سکیں کہ کائنات نے کیونکر جنم لیا اور اس کا انجام کیسا ہو گا۔ٹائے کہتے ہیں’’ ہم کائنات کے انجام کی پیشگوئی تو کر سکتے ہیں، لیکن یہ عملاً کیسے ختم ہوگی، یہ سوال اب بھی کھلا ہے۔ جیسے کوئی شخص یہ تو بتا سکتا ہے کہ کسی انسان کی متوقع عمر کیا ممکن ہے ، مگر یہ نہ بتا سکے کہ اْس کی موت کن حالات میں ہوگی۔‘‘