60 کا آغاز جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے ہوا تھا۔ ایوب حکومت نے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی تھیں مگرکمیونسٹ پارٹی اور اس کی ملحقہ مزدور اور طلبہ فرنٹ اس کا خاص نشانہ تھیں۔ حکومت کی خفیہ ایجنسیاں ترقی پسند کارکنوں کا پیچھا کرتی تھیں، جو آواز اٹھاتا یا کسی تنظیم کے منظم کرنے کے عمل میں شامل ہوتا تو اسے گرفتارکر لیا جاتا تھا۔کمیونسٹ پارٹی کے رکن حسن ناصرکو لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کردیا گیا تھا۔ ایوب خان کی حکومت امریکا کے ساتھ معاہدوں میں شامل ہوگئی تھی۔ پشاور کے قریب بڈا پیر کا اڈا امریکا کے حوالے کردیا گیا تھا۔
اس عالمی تناظر میں حکومت کی ذمے داری ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کی سرکشی کو کچلنا تھی۔ اسی دور میں صرف بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کراچی کو ایوب آمریت کے خلاف تحریک کا مرکز بنایا تھا۔ این ایس ایف کے رہنما فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، حسین نقی، جوہر حسن اور واحد بشیر وغیرہ نے یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تحریک کو عوامی تحریک بنا دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں ان رہنماؤں کو کراچی بدرکردیا گیا تھا۔ بعد ازاں این ایس ایف کے کارکنوں نے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے خلاف پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اگرچہ محترمہ فاطمہ جناح کو ایک منظم دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں ہرا دیا گیا تھا مگر کراچی کے عوام میں آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا آتش فشاں پک رہا تھا۔
مبشر اسلم بنیادی طور پر ایک ذہین طالب علم تھے۔ ان کے والدین کا خواب تھا کہ وہ انجینئر بنیں۔ مبشر اسلم نے اس آدرش کے ساتھ نارتھ ناظم آباد کے جناح کالج کے شعبہ پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ جناح کالج این ایس ایف کا مرکز تھا۔ جناح کالج میں این ایس ایف کے اہم کارکن میکری کرامت اور بصیر نوید وغیرہ پہلے سے موجود تھے، یوں مبشر این ایس ایف کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ انھیں این ایس ایف نے طلبہ یونین کے صدر کے لیے نامزد کیا اور مبشر اپنی ذہانت کی بناء پر انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔
1968میں ایوب خان کی حکومت کے 10 سال مکمل ہوئے۔ ایوب حکومت کے کسی دانا دانشور نے مشورہ دیا کہ حکومت کو اپنا 10 سالہ جشن منانا چاہیے، یوں پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا جانے لگا۔ ملک بھر میں تمام افسران حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر تقریبات کا اہتمام کرنے لگے۔ اس زمانے میں بختیار صاحب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سربراہ تھے، وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوئے۔
صوبائی وزیر احمد سعید کرمانی کو ایک تقریب میں مدعو کر لیا گیا۔ این ایس ایف کے کارکن اس تقریب میں پہنچ گئے۔ کارکنوں نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے، یوں یہ تقریب تتر بتر ہوگئی اورکراچی سے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ تحریک پھر ملک کے دونوں صوبوں تک پھیل گئی۔ طلبہ تنظیموں کے ساتھ اساتذہ، مزدور،کسان اور سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ حکومت نے این ایس ایف کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ یکم ستمبر 1968 کے دن مبشر اسلم، بصیر نوید، سہیل ہمایوں، حفیظ اطہر طارق، فتح محمد، احمد راشدی وغیرہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
این ایس ایف کی سرگرمیوں میں جناح کالج ایک طالب علم رہنما ضیا اللہ کی صدارت کے دور میں ابھرکر آیا، ان کی صدارت کے بعد این ایس ایف میں مسئلہ درپیش تھا کہ اس کی جگہ کون لے گا؟ خیر مبشر اسلم نے وہ جگہ لی اور بھرپور طریقے سے اس جگہ کو پرکیا، وہ صدارت کا امیدوار تھا، چونکہ مبشر کیلکولیشن میں ماہر تھا، اس لیے وہ آسانی سے الیکشن جیت گیا۔
اس کی صدارت کے دور میں جناح کالج سے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی جو کامیاب رہی۔ بصیرکہتے ہیں کہ وہ اور مبشر یکم اکتوبر 1968 کو پھرگرفتار ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب ایوب خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں اور طالب علموں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔ ان کے علاوہ دیگر دوست سہیل ہمایوں، سبط حسن، طارق فتح، محمد احمد اور راشد تقی وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔ مبشر پر پولیس نے زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ ہم سے علیحدہ ہوجائے۔ مبشر ہم سب سے چھوٹا تھا مگر وہ ثابت قدم رہا۔
پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں جب سندھ میں سندھی زبان کا بل پیش کیا گیا تو بصیر اور مبشرکو دوبارہ گرفتارکر لیا گیا۔ بصیر لکھتے ہیں کہ ہم تو سندھی زبان کے بل کے حق میں تھے پھر بھی ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انجینیئر بننے کا آدرش ان کے سامنے تھا۔ انھوں نے انٹر پری انجنیئرنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور میرٹ کی بنیاد پر وہ این ای ڈی انجنیئرنگ کالج کے طالب علم ہوئے۔ این ای ڈی انجنیئرنگ کالج میں محمد نعمان ان کے سینئر تھے جو بعد میں این ای ڈی میں پروفیسر بنے۔ اس وقت دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کا این ای ڈی پر غلبہ تھا۔ اس تنظیم کے نامزد کردہ امیدوار طلبہ یونین کے انتخاب میں کامیاب ہوتے تھے۔
بائیں بازو کے طلبہ کے مختلف گروپ این ای ڈی میں متحرک تھے مگر ووٹوں کی تقسیم کی بناء پر انتخابات میں کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ محمد نعمان اور مبشر اسلم نے بائیں بازو کے تمام کارکنوں کو ایک متحدہ محاذ بنانے پر تیارکیا، یوں پروگریسو فرنٹ وجود میں آیا۔ پروگریسو فرنٹ نے محمد نعمان کو طلبہ یونین کی صدارت کے لیے نامزد کیا۔ محمد نعمان کی کامیابی کے خاصے امکانات تھے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے سابقہ مشرقی پاکستان سے آنے والے طلبہ کے ایک گروپ کو این ای ڈی میں داخلے کی اجازت دی، یوں محمد نعمان چند ووٹوں سے انتخاب ہارگئے مگر مبشر اسلم نے ذہین طلبہ کو جمع کیا اور معروضی حقائق کا تجزیہ کیا۔ پھر اگلے سال مبشر اسلم کو پروگریسو فرنٹ کی جانب سے طلبہ یونین کی صدارت کے لیے نامزد کیا گیا۔ مبشر اسلم اکثریتی ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ مبشر اسلم کا منشور تھا کہ این ای ڈی کالج کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے اورکراچی یونیورسٹی سے متصل قطعہ اراضی پر نیا کیمپس تعمیر کیا جائے۔
اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت میں پیار علی آلانہ وزیر تعلیم تھے۔ انھوں نے این ای ڈی کو یونیورسٹی بنانے کے پروجیکٹ میں خصوصی دلچسپی لی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ایک جبرکا دور تھا، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں۔ مبشر اسلم مجبورا روزگار کے لیے سعودی عرب چلے گئے، وہاں سے کینیڈا منتقل ہوئے۔ مبشر دنیا سے تو چلے گئے مگر اس ملک کے حالات واپس اسی نہج پر پہنچ گئے جیسے ایوب خان کے دور میں تھے۔ اگرچہ جنرل ایوب خان کے دور میں بنیادی حقوق معطل تھے اور عدلیہ کے لیے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ مشکل تھا، اخبارات کو پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا تھا اور سول سوسائٹی کا سائز مختصر تھا مگر ملک کے اکثریتی صوبے سابقہ مشرقی پاکستان میں متوسط اور نچلا متوسط طبقہ سیاسی شعور سے آراستہ تھا۔ مزدور اورکسان،طلبہ، دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیمیں متحرک تھیں۔
خیبر پختون خوا میں خدائی خدمت گار تحریک کی انگریز سرکار کے خلاف تاریخی جدوجہد کی روایت موجود تھی۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی جدوجہد تھی۔ سندھ میں ہاری تحریک ون یونٹ کے خلاف مزاحمتی تحریک، پنجاب میں کسانوں، مزدوروں اور دانشوروں کی تنظیموں کے علاوہ پورے ملک کے مظلوم عوام کے حقوق کی جدوجہد کے نام پر قائم ہونے والی سیکولر جماعت نیشنل عوامی پارٹی موجود تھی۔ یہ تحریک اتنی مضبوط تھی کہ جماعت اسلامی نے ایک مرد ایوب خان کے مقابلے میں ایک عورت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
یہی وہ Variables تھے کہ جن کی وجہ سے 1968 میں کراچی میں این ایس ایف کی شروع کردہ ایوب آمریت کے خلاف چھوٹی سے تحریک جو بظاہر ایک چنگاری تھی، پورے ملک میں پھیل گئی۔ 1968کی تحریک ایک مکمل طور پر سیکولر تحریک تھی۔ اس تحریک میں تمام جماعتیں شریک تھیں۔ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ ایوب حکومت کو اگرتلہ سازش کیس کو ختم کرنا پڑا تھا اور شیخ مجیب الرحمن سمیت تمام سیاسی قیدی رہا ہوئے تھے۔ اگر 1971میں اس وقت مغربی پاکستان کے سیاست دان بصیرت کا ثبوت دیتے تو یہ ملک منقسم نہ ہوتا، منتخب حکومتیں برطرف نہ ہوتیں اورآج عوام کو معاشی بدحالی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی نہ دیکھنی پڑتی۔ یہ اشعار مبشر کی جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔
نہ رہا رخ جنون وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنھیں جرم عشق پر ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے