مشینوں کی گونج مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ مزدور کے ہاتھ خالی ہیں اور دل پریشان۔ چاول، کپاس ہو یا تیار شدہ کپڑے اور ملبوسات میں چھپی محنت اب عالمی منڈی کی سست روی میں دب کر رہ گئی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار کی بدولت ایسا ظاہر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہر غریب، ہر کسان، ہر زمیندار کی داستان غربت کی صدا ہے پہلے برآمدات میں عموماً 10 سے 12 فی صد اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ 4 فی صد سے زائد کی کمی دراصل برآمدات کی کمی کے ساتھ قوم کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں اور اس تاریکی کو اور گہرا کر دیا گیا ہے جب معلوم ہوا کہ درآمدات میں ساڑھے 15 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران پاکستان کی کل درآمدات 23 ارب 11 کروڑ ڈالرز کی رہیں جب کہ گزشتہ مالی سال کے جولائی تا اکتوبر 2024 میں 20 ارب ڈالرزکی تھیں۔ ساڑھے 15 فی صد درآمدات کا اضافہ ملک کے تجارتی توازن کے لیے انتہائی افسوس ناک ہے اور تشویشناک بھی ہے کیونکہ ہر درآمدی سامان ہماری کمزوری کا فسانہ ہے۔ مزدور کے لیے کم روزگار کے خدشات ہیں۔ درآمدات ہر پاکستانی کے سر پر بوجھ ہے جو غربت مہنگائی صحت کے مسائل اور بے شمار مسئلے و مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ برآمدات میں 4 فی صد کی کمی اور درآمدات میں ساڑھے 15 فی صد کا اضافہ ملکی خزانے، تجارتی توازن اور عوام کی خوشحالی کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ نوحہ صرف مالی نقصان کا نہیں 23 ارب ڈالر کا ہاتھ سے پھر سے اڑ جانے کا نام نہیں بلکہ تجارتی ناکامی ہے۔ پاکستان جس کی برآمدات اکثر 10 سے 12 فی صد سالانہ اضافے کی راہ پر اکثر چلی جاتی ہے، اگر اس 10 فی صد اضافے اور 4 فی صد کمی کو اضافے میں بدل دیں تو برآمدی مالیت ساڑھے 12 یا 12 ارب ڈالر تک ہو سکتی تھی لیکن دنیا کی منڈی میں برآمد شدہ مال کی امیدیں ماند پڑ رہی ہیں۔
بہت سے ملکوں کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں برآمدات میں اضافے کی توقع بندھ کر اب ٹوٹ رہی ہے۔ کیونکہ عالمی تجارت کے وعدے اور امیدیں اب دھندلا رہی ہیں، لیکن پاکستان کے پاس اب بھی 7 ماہ سے زائد کا عرصہ ہے۔ اس عرصے کے لیے ان وعدوں، تقریروں، عزم اور ارادوں کو یاد کریں جو حکومت کے ایوانوں سے بار بار دہرائی جاتی رہی ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے گُر آزمانے کا وقت آگیا ہے۔
بجلی، گیس، پانی کی فراوانی، ٹیکسوں کی ارزانی بیرون ملک تجارتی اتاشیوں کی دوڑ دھوپ تاجروں کے لیے آسانی اور بہت سی باتوں کے لیے فوری ایکشن پلان بنایا جائے۔ 4 ماہ کی برآمدی کارکردگی نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو 7 ماہ بعد یہ اعداد و شمار عوام پر بوجھ بن کر اتریں گے کہ سال گزشتہ کی نسبت برآمدات میں اتنے فی صد کمی واقع ہو گئی ہے، لہٰذا اس سے بچنے کا اہتمام فوری کیا جائے۔ 4 فی صد برآمدات میں کمی کو برآمدات میں 40 فی صد اضافے سے بدل کر رکھ دینا، تاجروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل جب ہی بن سکتا ہے جب حکومت مراعات اور سہولیات اورکچھ ارزانی فراہم کرے۔