دنیا اس وقت نہایت تیزی سے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرانی دوستیاں ٹوٹ رہی ہے اور نئے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور عرب دنیا کی اسرائیل کی جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ جو موجودہ حکمت عملی ہے، آج سے صرف چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو سزائے موت، یہ حسینہ واجد اور بھارت کے لیے یکساں پیغام ہے اور تو اور نیپال نے بھی بھارتی کیمپ سے نکلنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
بدقسمتی سے تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستان ابہام کا شکار نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور روس اس بات پر متفق ہے کہ اب امریکا کو ایشیا سے نکلنا ہوگا۔
امریکا ویسے بھی ایک بجھتا ہوا چراغ ہے اور وہ اس وقت اپنے سپر پاور رہنے کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے خطے میں اس وقت اس کے اتحادی عرب ممالک اور پاکستان ہیں۔
عرب ممالک کو خوف ہے کہ اگر انھوں نے امریکا کا ساتھ نہ دیا، تو ان کی بادشاہت ختم کردی جائے گی۔ اس تناظر میں آپ عرب ممالک کی امریکا میں سرمایہ کاری کے اعلانات کو دیکھیں تو ساری بات سمجھ میں آتی ہے۔
یہ خطرہ صرف بادشاہت کو ہی نہیں بلکہ کچھ ایسا ہی خوف جمہوری حکومتوں کو بھی ہوتا ہے کہ جس میں ہم بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو سپر پاور کے درمیان تقسیم ہوگئی تھی، ایک امریکا اور دوسرا سوویت یونین۔
1962 کی ہندوستان اور چین کی جنگ کے بعد چین نے خود کو سوویت یونین کے بعد ایشیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کے طور پر تسلیم کروایا تھا لیکن ہندوستان یہ ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ اس خطے کا ایک ہی ’’چوہدری‘‘ ہوسکتا ہے اور وہ ہندوستان بننا چاہتا ہے۔
سوویت یونین اپنی پے در پے حماقتوں اور سازشوں کے نتیجے میں ٹوٹ گیا اور چین کے لیے میدان کھل گیا۔ آج چین ہر زاویے سے امریکا کے علاوہ دنیا کی دوسری سپر پاور ہے کہ جس کو روس نے بھی قبول کر لیا ہے اور اسی لیے اب چین امریکا کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
اب یہاں سے ہندوستان کے کردار کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکا چین کو ہندوستان کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور ان کے درمیان براہ راست تصادم اس کی دیرینہ ترجیح ہے۔ اس کی اس خواہش کے درمیان پاکستان رکاوٹ ہے۔
سب کو پتہ ہے کہ پاکستان چین کی پہلی دفاعی لکیر ہے، اس لیے چین پاکستان کے دفاع سے غافل ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال میں چین کے ساتھ یارانہ اور امریکا کے ساتھ بھی دوستانہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے جو نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
ویسے بھی دو کشتیوں کے سوار کے لیے درسی کتابوں میں کچھ اچھا نہیں لکھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ ماننا اور سمجھنا ہوگا کہ حقیقی جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہے اور اس میں ہم دونوں کے حلیف نہیں ہوسکتے۔
ہماری اس حکمت عملی سے کبھی کبھی چین کی جانب سے دبے الفاظ میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چین نے متبادل حکمت عملی پر کام بھی شروع کردیا ہے۔
بنگلہ دیش اور نیپال میں تبدیلی اسی عالمی بلواسطہ جنگ کا حصہ ہے کہ جس میں اگر ضرورت پڑی تو آگے چل کر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ جن کو سات بہنیں ان کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے کہتے ہیں۔
افغانستان نے ایک وقت میں چین کے کہنے پر پاکستان سے مفاہمت کا آغاز کیا تھا جو آج بری طرح مجروح ہوگیا ہے اور ہم افغانستان کے ساتھ قریب قریب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
امریکا کی حکمت عملی دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے چین مخالف ہی رہے گی اور اس لیے ہندوستان امریکا کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اسی مجبوری نے پچھلے دروازے کی سفارت کاری کے ذریعے ان کے تعلقات بہتر کیے ہیں۔
ہندوستان نے سمجھ لیا ہے کہ چینی اسلحے کا مقابلہ صرف امریکی اسلحے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور روس اس میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یورپ نقد مانگتا ہے کیونکہ اس کا چین سے براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ایک امریکا ہی بچتا ہے جو اس پر سرمایہ کاری کرے گا کیونکہ اس میں اس کا بھی مفاد ہے۔
ہندوستان امریکا سے F35 اسٹیلتھ جہاز اور دیگر جدید جنگی ساز و سامان اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی لینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اعلیٰ درجے کی سفارت کاری اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ دنیا ہم سے اپنی غلاظت صاف کروانا چاہتی ہے اور ماضی میں بھی دوسروں کی جنگیں لڑنے میں ہمارا کردار کوئی قابل ستائش نہیں رہا ہے۔
اس لیے ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اپنے کارڈز کیسے کھیلے گا؟ ہر چند کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت ہمیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی کالی بھیڑوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
آنے والا وقت غیر یقینی ہی نہیں، بلکہ مشکل بھی ہوگا اور اس مثلث میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں وہ ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اللہ اس مشکل وقت میں پاکستان کا حامی و ناصر ہوں۔