یوں تو ایران میں گزشتہ 20 سال سے بارشیں کم ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکلات کا شکارچلی آرہی ہے لیکن اب صورتحال بحران کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
ایران کا دارالحکومت تہران، محض ایک شہر ہی نہیں بلکہ ایران کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی علامت بھی ہے۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق رواں برس بارشوں میں غیر معمولی کمی نے پورے ایران کو ایسی سخت صورتحال سے دو چار کر دیا ہے کہ ماہرین کھل کر اعتراف کرنے لگے ہیں: اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو تہران چند سالوں میں پانی سے تقریباً محروم ہوسکتا ہے۔
تہران 900 سالہ تاریخ کا امین اور ایران کا دل ہے۔ایک کروڑ سے زائد آبادی، قدیم بازار، قاچار دور کے محلات، اسلامی فنون کا امین، ایران کی تہذیب و علم کا مرکز ہی نہیں بلکہ اس خطے کی سیاست کے اعصابی نظام کا مرکز بھی ہیں۔
یہ شہر ایران کی شناخت بھی ہے اور اس کا مستقل بھی ہے۔ آبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ایران میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، ڈیموں میں پانی 20 سے 30 فیصد تک رہ گیا ہے، جب کہ بارشوں اور برفباری میں نمایاں کمی نے آیندہ سالوں کا منظرنامہ مزید خوفناک بنا دیاہے۔
ایران میں بگڑتی ہوئی آبی صورتحال ہمارے لیے بھی ایک سنگین وارننگ ہیں۔ ایران میں خشک سالی اب مستقل صورت اختیار کرتی جا رہی۔موسمیاتی تبدیلی شدید تر ہو رہی ہے، اور دریاؤں کے بہاؤ میں کمی پورے خطے کو متاثر کر رہی ہے۔
اگر آج تہران پانی مانگ رہا ہے تو کل کراچی،حیدرابادسکھر،ملتان، بہاولپور، لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد بھی اسی قطار میں کھڑے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ایران کا نہیں، خطے کا ہے،اور ممکن ہے یہ صورتحال اس خطے میں نئے ’’واٹر امیگریشن کرائسس‘‘ تک جا پہنچے۔
تصور تو کیجیے کہ تہران جو صدیوں سے تہذیب، شاعری، تاریخ، سیاست اور دانش کا مرکز رہا ہے، اب پانی کی چند بوندوں کا محتاج ہو جائے گا؟ کیا وہ گلیاں جہاں فردوسی، سعدی، حافظ اور رومی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے، آنے والے برسوں میں خشک اور سنسان ہو جائیں گی۔
اگر ہم اپنے خطے کو پانی کی بحران اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانا چاہتے ہیں تو پاکستان، ایران ، افغانستان اور بھارت کے درمیان مشترکہ’’ واٹر ڈائیلاگ‘‘ بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ خطرے کا ناقوس بج چکا ہے۔
تہران کا زیرزمین کم ہوتا ہوا پانی دراصل خطے کی اجتماعی شکست کی طرف پہلا قدم ہے۔ وقت کم ہے، خطرہ بڑا ہے، اور اگر اب بھی غفلت جاری رہی تو آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب تہران پیاسا ہوگیا تھا تو خطے کے رہنماؤں نے آنکھیں کیوں بند کیے رکھیں۔
ایران کی خشک سالی ہمارے لیے بھی ایک کھلی وارننگ ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی فی کس پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔کراچی، تھرپارکر اور بلوچستان کے کئی علاقے خشک سالی کا شکار چلے آرہے ہیں۔
پاکستان کو ’’واٹر اسٹریسڈ‘‘ ملک سے ’’واٹر اسکارسٹی‘‘ کے مرحلے میں داخل ہونے کی وارننگ بارہا دی جا چکی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں۔اب زبانی جمع خرچ اور پلاننگ کا راگ الاپنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگر ہم نے پانی کے نئے ذخائر بنانے، پانی کے ضیاع کو روکنے، بارانی نظام کو اپ گریڈ کرنے، اور شہری سطح پر واٹر مینجمنٹ کو بہتر نہ بنایا تو کل ہمارے شہر بھی تہران کی طرح پانی کے بحران کا سامنا کر رہے ہوں گے۔
تہران کا الارم دراصل پورے خطے کے لیے الارم ہے۔ یہ الارم ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے کہ پانی کی کمی کا مسئلہ ابھی صرف امتحان ہے،لیکن اگر ہم نے اپنی آنکھیں اور دماغ بند رکھا تو کچھ عرصے بعد یہ امتحان بحران بن جائے جائے گا۔
پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والا بحران نہ تو بیان بازی سے حل ہوتا ہے نہ ہیکاغذی منصوبے بنانے سے۔ موسمیاتی تبدیلی اورآبی وسائل مینجمنٹ قوم کی اجتماعی دانش اور حقیقت پسندی سے ہی ممکن ہے۔
تاریخ اقوام عالم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سلطنتیں، تہذیبیں اور سپر پاور کتنی ہی طاقت حاصل کیوں نہ کر لیں لیکن اگر ان کے پاس پینے کا پانی اور زرعی اراضی کے آبپاشی کا نظام نہیں ہیں تو پھر تمام تر ترقی مٹی بن جاتی ہے۔