آرہاہے آنے والا

ہم پی ٹی آئی کے وکیل صاحب کے بہت ممنون ہیں کہ انھوں نے ہماری بہت بڑی پریشانی اورالجھن دورکردی ہے ۔ انھوں نے اپنے بیان میں فرمایا ہے کہ

’’جب بانی آئیں گے تو‘‘

جہاں کہیں گے وہی عدالت ہوگی اورجو بولیں گے وہی قانون ہوگا ۔

 باقی تفصیل تو جناب وکیل صاحب نے نہیں بتائی ہے کہ وہ جہاں کھڑے ہوں گے،لیٹے ہوں گے، چلتے ہوں گے، کھائیں پئیں گے، وہاں کیاکیا ہوگا ، لیکن پھر بھی ہماری بہت بڑی سمسیا حل ہوئی اوریہ الجھن ہماری اس زمانے سے ہے جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے اوروہاں ’’ٹیکے ‘‘ لگانے والے آتے تھے۔

اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کسی آنے والے کی تلاش ہیں، ویسے کسی آنے والے کا ذکر تقریباً ہرمذہب میں موجود ہے ، ہندی عقائد کے مطابق وشنو بھگوان جو اس دنیا کا محافظ اورپالن ہار ہے جب بھی اس دنیا پر کوئی ’’سنکٹ‘‘ یعنی مصیبت آتی ہے تو وہ کسی اوتار میں آکر دنیا کو اس سے بچالیتا ہے ، اب تک وہ نو اوتار لے چکا ہے۔

پہلااوتار متیسہ (مچھلی) کی شکل میں تھا جب اس نے دنیا کو سیلاب عظیم سے بچایا تھا، اس نے منو مہاراج کوکشتی میں بٹھا کر اورپھر کھینچ کر ہمالیہ پہنچایا تھا اورپھر منو سے انسانی نسل چلی، اس کے بعد اس نے کچھوے کاروپ لیا تھا، پھر رام چندر، کرشن اوربدھ کے روپ میں اوتارلیے لیکن دسواں اوتارکلکی اوتار ابھی باقی ہے ۔

جب آخری زمانے میں ساری دنیا پر ظلم کااندھیرا چھا جائے تو وہ یہاندھیرا دورکرکے اصلی ویدوں کادھرم بحال کردے گا ۔

ہم ان عقائد پر نہ تو کچھ بول سکتے ہیں نہ بولیں گے کیوں یہ بڑے نازک معاملات ہیں کیوں کہ اپنی گردن کو خوامخوا شمشیروں کے بیچ دینے سے فائدہ کیا؟ یعنی علمی بحث نہیں کریں گے  لیکن ایک دوفلمی مناظر کاذکر ضرورکریں گے۔ 

ایک ہندی فلم میں جیل کے اندر قیدی کھانے کے لیے برتن لیے ہوئے کھڑے ہیں،قطارکھڑی ہے لیکن ایک آدمی قطار میں کھڑا ہونے کی بجائے الگ اورسیدھا کھانا دینے والوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، کوئی اس سے کہتا ہے کہ قطار میں کھڑے ہوجاؤ تو وہ کہتا ہے جہاں میں کھڑا ہوجاتا ہوں، قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے ۔

ایک اورفلم میں ہیروکہتا ہے ، میں مجرم بھی خود ہوں، عدالت بھی میں خود ہوں، قانون بھی میں ہوں، جج بھی میں ہوں اورجلاد بھی میں ہی ہوں ۔

ایک پنجابی فلم میں ایک طاقتور بندہ جب چلتا ہے تو دو نوکر ایک چارپائی اورمیز اٹھائے ساتھ چلتے ہیں اور وہ جہاں حکم دیتا ہے، ملازم چارپائی اورمیز بچھالیتے ہیں اور وہ چارپائی پر بیٹھ کر اپنی عدالت جمادیتا ہے اور راستہ گزرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر انصاف کرتا ہے ۔

آپ سوچیں گے کہ ہم نے سارے حوالے فلمی کیوں دیے تو یہ معاملہ ہی سارافلمی ہے، بیرسٹرگوہر نے جو بیان دیا ہے یا خوش خبری سنائی ہے یا پیش گوئی کی ہے ، وہ لگتی ہے جیسے کوئی فلمی ڈائیلاگ مارا ہو۔

دراصل پی ٹی آئی میں جتنے بھی وکلاء صاحبان جمع کیے گئے ہیں، وہ سب کے سب فلمی ڈائیلاگ مارنے میں ماہرہوتے ہیں اوران کاہرڈائیلاگ پیش گوئی کارنگ لیے ہوئے ہوتا ہے، اگر یاد ہوتو اس سے پہلے ایک وکیل صاحب جو اور بھی بہت ساری ڈگریاں رکھتا تھا ، پنجاب کے بارے میں بہت سارے پیش گویانا ڈائیلاگ روزانہ مارتا تھا، جو سب کی سب پوری ہوچکی ہیں۔ 

لیکن اس خاص پیش گوئی کاذکر ہم اس لیے کرناچاہتے ہیں ، ہم جن وکیل صاحب کا ذکر کررہے ہیں، ہم ان کے بہت زیادہ ممنون ہیں کہ اسکول کے زمانے سے ہم جس ’’آنے والے‘‘ کے منتظر ہیں اور اس بگڑی ہوئی دنیا کو دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے۔ 

اس کے آنے کی نشانیاں جناب وکیل صاحب نے بتادی ہیں اوریہ تو ساری دنیا جانتی کہ وکلاء لوگ جھوٹ بھی نہیں بولتے اورپھر اگر وہ ’’بانی‘‘ کے حلقہ ارادت میں ہوں تو چپڑیاں اوردو دو ہوجاتے ہیں ۔

لیکن ایک بات البتہ کچھ الگ سی ہے ،دنیا میں جس ’’آنے والے‘‘ کاانتظار ہورہا ہے، اس کے بارے میں سب یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے کچھ ’’نیا‘‘ نہیں رائج کرے گا بلکہ پرانے کو ہی اصل شکل میں بحال کرے گا۔ جب کہ وکیل صاحب کا ’’آنے والا‘‘ ہرچیز کا ’’بانی‘‘ ہوگا۔

سن لی جو خدانے وہ دعا تم تو نہیں ہو

 دروازے پہ دستک کی صدا تم تو نہیں ہو

Similar Posts