جامعہ کراچی،گھٹتے طلبہ اور…

ایک خبر تو یہ ہے کہ ملک کے سب سے کثیر آبادی والے شہرکراچی میں جہاں سب سے زیادہ پڑھنے کا رحجان ہے، وہاں کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ میں طلبہ کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ وزیر جامعات سندھ محمد اسماعیل راہو اپنی ذمے داریوں کو خوب سمجھتے ہیں اور باخبر رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور پھر مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی کرتے ہیں، لٰہذا اس ضمن میں ان کی توجہ جامعہ میں طلبہ کی گھٹتی تعداد کی طرف بھی مبذول کروانا چاہوں گا۔

جامعات خاص کر جامعہ کراچی میں ہر سال داخلوں میں کمی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور یہ بات خاص توجہ طلب ہے کہ کراچی شہر لگ بھگ تین کروڑ تک کی آبادی والا شہر بن چکا ہے اور یہ وہ واحد شہر ہے کہ جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رحجان سب سے زیادہ رہا ہے، ایسے میں جامعہ کراچی جو سب سے بڑی سرکاری جامعہ ہے، یہاں طلبہ کی تعداد کا کم ہونا، معمولی بات نہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ان وجوہات کا کھوج لگایا جائے جن کے سبب اس سرکاری جامعہ میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

بظاہر تو دو اہم وجوہات نظر آتی ہیں جن میں سے ایک جامعہ کراچی میں بڑھتی فیسیں ہیں،چونکہ مہنگائی اس وقت اپنے عروج پر ہے، لٰہذا ایک عام خیال یہی ہے کہ شہرکے طلبہ اب ان بھاری فیسوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اب ایک سوال یہ ہے کہ جامعہ کراچی آخر فیسوں میں اضافہ کیوں کرتے چلی جا رہی ہے؟ اس کا جواب بھی بظاہر یہی ہے کہ اگر فیسوں میں اضافہ نہ کرے تو پھر اپنے اخراجات کہاں سے پورا کرے، کیونکہ تعلیمی بجٹ تو بہت ہی کم ملتا ہے۔

ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ وقت پر تنخواہیں وغیرہ نہ ملنے سے اب اساتذہ میں بھی مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی ہے اور ویزیٹنگ اساتذہ کی ایک اچھی تعداد اب نجی جامعات کی طرف منتقل ہو رہی ہے جب کہ ریگولر اساتذہ بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے، اس جامعہ کو خیر باد کہہ دیا جائے کیونکہ انھیں بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

مثلاً ان کی مختلف قسم کی مراعات میں توکمی واقع ہو رہی ہے مگر ان کی ترقی کے راستے بھی تقریباً بند ہوتے چلے جا رہے ہیں، بیشتر اساتذہ ترقی کے انتظار میں ہی ریٹائر ہوگئے مگر ان کے سلیکشن بورڈ نہ ہوسکے، حالانکہ وہ میرٹ پر تھے مگر پروسیجر بہت سست تھا، یعنی برسوں میں بھی مکمل نہ ہو سکا۔ اسی طرح اساتذہ کی ایک بہت بڑی تعداد سلیکشن بورڈ میں ترقی نہ پا سکی (حالانکہ ترقی ان کا جائز حق تھا کیونکہ بیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے تین تین ماہرین نے ان کے سی وی (جس کو ’ڈوزئیر‘کہا جاتا ہے) چھ، سات مہینے چیک کرنے کے بعد سلیکشن بورڈ میں شرکت کرنے اور پروموشن کرنے کی سفارش کی تھی) محض اس لیے کہ دس منٹ کے انٹرویو میں، انٹرویو لینے والوں نے انھیں ترقی پانے والوں کی لسٹ میں شامل کرنے کے قابل نہ سمجھا۔ ساٹھ سے زیادہ کی تعداد میں یہ اساتذہ آج بھی ریفر بیک کمیٹی کے رحم وکرم پر ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ بہرکیف سندھ کی سب سے بڑی جامعہ کراچی اس دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ فوری طور پر اس کے تمام مسائل پر توجہ دی جائے۔

 اور دوسری خبر اس جامعہ سے متعلق یہ ہے کہ یہاں کتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ ایک خبرکے مطابق تقریباً آٹھ سے دس سال کی دو بچیوں کو ان کتوں نے کیمپس میں ایک گھرکے لان میں گھس کر بری طرح کاٹ کر زخمی کردیا، اس سے قبل بھی بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں کئی طلبہ کتوں سے بچنے کے لیے بھاگے اور گرکر زخمی ہوگئے، یعنی یہ کتے پوری جامعہ میں گھومتے رہتے ہیں، کبھی رہائشی علاقوں میں توکبھی مختلف شعبہ جات میں۔ طلبہ میں ان کتوں سے سخت خوف ہراس پھیلا ہوا ہے۔

ان واقعات کے بعد مختلف واٹس ایپ گروپ اور سوشل میڈیا پر یہ موضوع چھایا نظر آیا اور ہمارے طلبہ کلاس روم میں بھی اسی موضوع پر بات کرتے نظر آئے۔ ایک طالب علم کہہ رہا تھا کہ ’’ کتے بھی جان رکھتے ہیں، جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، لٰہذا انھیں ہلاک کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔‘‘ ایک دوسرا طالب علم کہہ رہا تھا کہ ’’ مذہب میں بھی جانوروں کو اذیت دینا منع ہے۔ بچے کو تو ایک کتے نے کاٹا اور ہم سارے کتوں کو مارنے کی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘ کسی نے کہا کہ ’’ ان کو مخصوص ویکسین لگا دو تاکہ کتے کے کاٹنے کے نقصانات سے بچا جا سکے۔‘‘

ایک اور طالب علم نے کہا کہ ’’کتوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو شعبہ نفسیات کے حوالے کیا جائے، ہم خوف کی فضا میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘بطور استاد ہم نے طلبہ کو میڈیا کمپیئن چلانے کے لیے اسائنمنٹ دیا تھا چنانچہ ایک روز جب ہم کلاس میں پہنچے تو ایک طالبہ نے کہا کہ ’’ سر! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے اسائنمنٹ کی میڈیا کمپیئن جامعہ کراچی کے کتوں پر چلائیں گے۔

 اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا، ایک دوسرے طالبعلم نے کہا، لیکن یہ سوال یہ ہے کہ کتوں تک یہ پیغام کس ذریعے سے جائے گا؟ واٹس ایپ سے، اخبار سے یا لاؤڈ اسپیکر سے اعلانات کیے جائیں گے یا پھر شٹل اور پوائنٹس میں بیٹھے طلبہ کھڑکیوں سے سر نکال کر آوازیں لگاتے جائیں گے۔

 ایک اور طالب علم نے کہا،’’ کتے پڑھے لکھے نہیں ہوتے، لہٰذا کمپیئن پرنٹ میڈیا پر نہیں چل سکتی۔‘‘

کلاس میں سارے طالب علم اس گفتگو پر ہنس رہے تھے،ایک طالبہ نے کہ ’’ سر یہ طلبہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھے حزب اختلاف کی طرح شور مچائے جا رہے ہیں، میری بات پوری نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

میرا مطلب ہے کہ ہم میڈیا کمپیئن کیمپس میں رہنے والوں اور انتظامیہ کی آگاہی کے لیے چلائیں گے  جس میں ہم بتائیں گے کہ جامعہ کراچی ایک تعلیمی ادارہ ہے جہاں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پڑھتی ہے، جب یہاں مختلف شعبہ جات میں درجنوں کتے جگہ جگہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں تو اس سے طلبہ خصوصاً لڑکیوں میں شدید خوف و ہراس پھیلتا ہے، انھیں ایک سے دوسرے شعبہ جات میں جانا ہو،کینٹین جانا ہو یا لائبریری، سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لٰہذا جس طرح انسانی آبادی کو نقصانات سے بچانے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے ویسے ہی جامعہ کراچی میں کتوں کی بڑھتی تعداد کو فوری طور پر کنٹرول کیا جائے اور مہم چلائی جائے۔اس بات پر ایک طالب علم پھر بولا، ’’ سر! بات بالکل درست ہے جب ہم انسانوں کے لیے مہم چل سکتے ہیں تو پھرکتوں کے لیے کیوں نہیں! خود میرے محلے میں کتوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور آئے دن یہ بچوں کو کاٹتے ر ہتے ہیں۔‘‘

میں نے کلاس کے طلبہ سے کہا کہ ’’ میں آپ طلبہ کی اس دلچسپ گفتگو سے بہت لطف اندوز ہوچکا ہوں، اب آپ کتوں کے اس موضوع کو چھوڑ دیں، کیونکہ اعلیٰ سطح پر ان واقعات کا نوٹس لے کر ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔‘‘

ایک اچھی خبر یہ آئی کہ جامعہ کراچی میں کتوں کے کاٹنے کے ان واقعات پر وزیر جامعات سندھ محمد اسماعیل راہو نے نوٹس لیا اورگلشن ٹاؤن کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی کہ فوری طور پرکتا مار مہم شروع کی جائے۔

Similar Posts