تین سے چار دن میں یہ تمام مقامات باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ میں اکتوبر اور نومبر میں دو بار بہاولپور اور چولستان دیکھنے گیا۔ ایک بار عمارہ خان نے زبیر کھنڈ کے دوستوں کے ساتھ مل کر صحرا میں قیام کا انتظام کر رکھا تھا، بہاولپور زبیر کھنڈ کے والد محترم کے ساتھ دیکھا اور پھر زبیر کی ٹیم کی ہمراہ صحرا میں چلے گے۔ عمارہ کراچی سے اور میں فیصل آباد سے بہاولپور پہنچا تھا اور اْچ شریف صحرا سے واپسی پر پبلک وین پر دیکھا گیا تھا۔
ایک بار راولپنڈی سے بہت اچھے دوست فوجی افسر عباد بشیر کے ساتھ اپنی گاڑی پر بہاولپور اور قلعہ دراوڑ دیکھنے کا پلان تھا۔ دوست اسلام آباد سے فیصل آباد پہنچا اور پھر ہم اپنی گاڑی پر بہاولپور گئے۔ اس میں ہمارا میزبان ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ٹورازم کا کلاس فیلو حارث منور کا چھوٹا اور پیارا سا بھائی اور میرا دوست من موجی زندہ دل سید کامران تھا۔ اس ٹور میں قلعہ دراوڑ اور نوابوں کے مقبرے دیکھے گئے تھے۔
ان مقامات کی سیر کا بہترین طریقہ یہ ہے رات اپنے شہر سے نکلیں اور صبح ناشتہ بہاولپور فرید گیٹ کے قریب مزیدار ناشتہ پوائنٹ سے کریں، اسی بازار کے اندر شاہی مسجد ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مسجد دیکھ کر عجائب گھر اور بہاولپور سینٹرل لائبریری کی طرف آ جائیں، لائبریری کی عمارت 1924 میں تعمیر کی گئی تھی اور نوابی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔
لائبریری کے ہال اور کتابیں حیران کر دیتے ہیں جہاں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ عجائب گھر میں بہاولپور و چولستان کی تاریخ و ثقافت کا بہترین خزانہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کی خاص بات نواب آف بہاولپور اور قائداعظم کی ملاقاتوں کا یادگار اور نایاب تصویری مجموعہ ہے، ساتھ ہی نواب صاحب کے زیر استعمال رولز رائس کار اور پرانا سٹیم انجن بھی ہے۔ میرا مشورہ ہے جب بھی بہاولپور جائیں عجائب گھر اور لائبریری ضرور دیکھیں۔
نور محل ضرور دیکھیں جس کی ٹکٹ ہے اور بآسانی دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ دربار محل، نشاط محل اور صادق گڑھ محل بھی ہیں لیکن وہ دیکھنے کیلئے فوج میں ذاتی تعلق ہونا چاہئے اور پھر پیشگی انتظام بھی کیا گیا ہو ورنہ یہ محل دیکھنے ممکن نہیں ہیں کیونکہ یہ محلات فوج کے انتظامی معاملات کیلئے مخصوص ہیں۔
اگر آپ صبح بہاولپور پہنچے تھے تو دو تین بجے تک آرام سے بہاولپور کی تمام جگہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سے 30 کلومیٹر دور ایک گھنٹے میں حاصل پور روڈ پر لال سوہانرا نیشنل پارک چلے جائیں، ایک لاکھ 62 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے اس پارک میں تقریباً 70 ایکڑ پر کالے ہرن کی چراگاہ بنی ہوئی ہے جو اس پارک کی وجہ خاص ہے۔
ہرن کی ایک اور قسم چنکارہ بھی یہاں آپ کو دوڑتے اور پھدکتے ملیں گے۔ اس کے علاوہ اس پارک میں کالے راج ہنس کی افزائشِ نسل بھی کروائی جاتی ہے۔ چند سال پہلے تک یہاں دریائی گھوڑے بھی ہوتے تھے جو اب بہاولپور چڑیا گھر منتقل کردیئے گئے ہیں۔ یہاں ایک جھیل اور بچوں کیلئے کھیلوں کا پارک بھی ہے۔ پارک میں داخلے کے ساتھ ہی سیاحوں کیلئے ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے جہاں قیام کیا جاسکتا ہے۔
یہیں سے آگے عظیم بزرگ حضرت عمادالدین المعروف چنن پیر کا مزار دیکھیں، جو تیس چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ چنن پیر کا مزار تقریباً 600 سال پرانا ہے، حضرت عماد الدین المعروف چنن پیر کا عرس پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد عرس ہے جو مسلسل سات ہفتے یعنی فروری کی آخری جمعرات بمطابق ہندی مہینے چیت سے شروع ہو کر اپریل کی اوائل جمعرات تک جاری رہتا ہے۔ مسلسل سات جمعرات تک جاری رہنے والا یہ میلہ پانچویں جمعرات کو اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس دن ضلع بہاول پور میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے۔
پیدل، سایکلوں، اونٹوں ،اونٹ گاڑیوں اور گھوڑے تانگوں کا یہ بڑا پڑاؤ بذات خود ایک پررونق میلے میں بدل جاتا ہے شتر بانوں کے قافلے اپنی منزل سے چل کر رات کے ملگجے اندھیروں یا نیم صبح یہاں پہنچتے تو ڈاچیوں کی گھنٹیاں اور گھوڑوں کی ٹاپیں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتی ہیں۔ چولستانی زیور، لباس، صحرائی زندگی سے وابستہ ہر سامان کی دستیابی بھی اس میلے کا ایک حسن ہے۔
چنن پیر کے بعد آگے قلعہ دراوڑ چلے جائیں، جہاں پہنچنے میں مزید ایک گھنٹے لگتا ہے۔ اگر وقت کم ہو تو نیشنل پارک اور چنن پیر میں سے کوئی ایک جگہ دیکھ کر دوسری چھوڑ دیں اور اگر دونوں ہی نہ دیکھنا چاہیں تو براستہ احمد پور شرقیہ سیدھا چولستان چلے جائیں۔ اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ پر ہیں تو پھر لال سوہانرا پارک و چنن پیر نہ جائیں وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر لمبا اور مشکل ہوجائے گا ویگن پر پہلے احمد پور شرقیہ جائیں اور وہاں سے قلعہ دراوڑ کی ویگن لے لیں۔ وہ رات قلعہ دراوڑ کے قریب واقع گاؤں کے مہمان خانوں میں گزاریں، اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ نے پیشگی بکنگ کروا رکھی ہو تاکہ آپ کو سونے کا کمرہ اور کھانا مل جائے۔
میں پچھلے بیس پچیس سال میں جب بھی گیا ہمیشہ نوابوں کے مقبرے کے پاس رشید کے ہاں ہی ٹھہرا ہوں اسے جانے سے پہلے لئے فون کردیتا ہوں اور وہ سارے انتظامات خود ہی کردیتا ہے۔ بہاولپور اور چولستان میں کسی بھی قسم کی معلومات اور انتظامات کیلئے بہترین شخصیت صاحب کتاب زبیر کھنڈ صاحب ہیں اگر آپ صحرا کے اندر ریتیلے ٹیلوں پر رات گزارنا چاہتے ہیں تو پھر زبیر سے رابطہ کریں یہ BBQ کے ساتھ ایک رات صحرائی ڈیرے پر رہنے کا انتظام کروا دیں گے جو قدرے مہنگا ہوگا مگر اس سے اچھی یادیں کہیں نہیں ملیں گی۔
اگلے دن کوشش کرکے جلدی اٹھیں اور صحرا میں سورج طلوع ہونے کا منظر ، نوابوں کی قبریں ، قلعہ دراوڑ اور خوبصورت مسجد دیکھیں اور پھر رشید سے اونٹ لیکر ایک دو گھنٹے کیلئے اپنی سہولت کے مطابق صحرا کے اندر چلے جائیں۔ واپسی پر سورج غروب ہونے کا نظارہ کرنا مت بھولیں۔ چاندنی راتوں میں پورے چاند کی روشنی یادگار راتوں میں سے ایک ہوتی ہے اور اگر اندھیری راتیں ہو تو پھر ستاروں سے بھرا آسمان آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ علم فلکیات اور ستاروں کے شوقین حضرات کیلئے یہ دو راتیں زندگی بھر کی یادوں سے زیادہ حسین ہوتی ہیں۔
اگلے دن ذرا جلدی اٹھیں طلوع آفتاب کا ایک بار پھر نظارہ کریں ناشتہ کرکے احمد پور شرقیہ کی طرف نکل جائیں۔ اْچ شریف میں ویسے تو بیشمار مقبرے ہیں مگر جلال الدین سرخ پوش، لکڑی سے بنی قدیم مسجد، جہانیاں جہاں گشت اور بی بی جیوندی کا مقبرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر آپ احمد پور شرقیہ سے ویگن پر جا رہے ہیں تو پھر اْچ بازار سے ایک چنگ چی کروا لیں جو آپ کو مقبرے دکھا کر واپس اُچ شریف شہر جانے کی بجائے اْچ شریف کے جنوب مغرب میں چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر اْچ شریف انٹرچینج پر چھوڑ دے۔ یہاں کچھ وقت بچا کر رکھیں اور چند کلومیٹر دور ہیڈ پنجند ضرور جائیں، پنجند وہ مقام ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا باہم مل جاتے ہیں اور کچھ نیچے جاکر دریائے سندھ میں کا گرتے ہیں۔ واپس اْچ شریف انٹر چینج پر آئیں،جہاں سے موٹروے کی بس لیکر گھر آ جائیں۔ اپنی گاڑی پر ہوں تو بھی واپسی پر یہی راستہ اختیار کریں۔
یوں آپ تین دن میں قدیم ریاست بہاولپور کی مکمل سیر اور صحرا کا ایڈونچر مکمل کرسکتے ہیں اگر آپ ایک دن اور شامل کریں تو پھر ملتان شہر کے تین بڑے مزار شاہ شمس تبریز، شاہ رکن عالم، بہاؤالدین زکریا، قلعہ کنہہ، پبلک لائبریری، حرم گیٹ کے اندر شیش محل، جین مندر، ساوی مسجد اور مرکزی عیدگاہ بھی شامل کرسکتے ہیں اور واپسی پر اصلی سوہن حلوہ ریواڑی محلہ کی گلیوں میں شام میں لگنے والے ٹھیلوں سے خرید سکتے ہیں جوکہ تازہ اور سستا ہوتا ہے۔