وہ لکھتے ہیں کہ’’ اگر گھر میں کسی شخص نے کسی وجہ سے بھی دن کا اخبار نہ پڑھا تو اس کا جرم سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں ہر طرف اخبار اور کتابیں پھیلی ہوتی تھیں۔‘‘ ا ن کے والدین عمومی طور پر 80ء کی دہائی کے مشہور رسالہ ’عالمی ڈائجسٹ‘ اور ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ شوق و شوق سے پڑھتے تھے مگر بقول زیدی 29 ذی الحج سے 13 محرم تک ان کی والدہ بالکل مختلف ہوتی تھیں۔
ان کا بیشتر وقت مجالس میں گزرتا تھا۔ شبر زیدی نے اپنے والد کی بیماری کے بارے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ ان کے فیملی ڈاکٹر نے نہ صرف ان کے والد کے معائنے کے بعد انھیں بتادیا تھا کہ والد صاحب کو کینسر ہے اور اگر وہ چھ ماہ تک زندہ رہ گئے تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ پھر تمام میڈیکل ٹیسٹ سے یہ بات درست ثابت ہوئی۔ شبر زیدی کا مشترکہ خاندان رضویہ کالونی میں آباد تھا۔ رضویہ کالونی میں بنیادی طور پر ہندوستان کے شہر امروہہ اور آگرہ سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کا بسیرا تھا۔ رضویہ کالونی میں ایک سیکولر ماحول تھا۔ بچے بچیاں مل جل کر کھیلتے تھے اور کسی قسم کی صنفی تقسیم نظر نہیں آتی تھی۔
شبر زیدی نے ناظم آباد گرین ہاؤس اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ زیدی لکھتے ہیں کہ ’’مجھے نوجوانی میں کمیونزم اور مارکسی لٹریچر میں خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی۔‘‘ انھوں نے چین کے بانی ماؤزے تنگ کی ریڈ بک کا مطالعہ کیا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس میں داخلہ لیا۔ انٹر کامرس کا نتیجہ آنے سے پہلے وہ اپنے والدین کے ساتھ لاہور منتقل ہوئے۔ لاہور کے علاقے کرشن نگر کے 32 ایکڑ روڈ پر ان کے نانا کا ایک بہت بڑا مکان تھا۔ لاہور میں انھیں ہیلے کالج آف کامرس میں داخلہ مل گیا۔ شبر زیدی ہیلے کالج میں طلبہ کی سیاست کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ 1977-78میں ہیلے کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں تشدد کا رجحان غالب تھا۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے کارکنوں نے ہیلے کالج کے ہوسٹل میں ٹارچر سیل بنائے ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما جہانگیر بدر ہیلے کالج کے سابق طالب علم تھے۔
بائیں بازو کی تنظیمیں گروہوں میں تقسیم تھیں۔ طلبہ نے شبر زیدی کے قریبی ساتھی وقار محمود زمان کو طلبہ یونین کا نائب صدر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ ہیلے کالج کی طالبات میں اس وقت تک حجاب پہننے کا رواج نہیں تھا۔ شبر زیدی نے جنرل ایوب خان اورفاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب کا ذکر کیا ہے۔ ان کے حلقہ سے شمس العباد بی ڈی ممبر منتخب ہوئے جو فاطمہ جناح کے حامی تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کراچی اور مشرقی پاکستان سے کامیاب ہوجائیں گی۔
کراچی کے عوام خاصے جذباتی ہیں مگر ایوب خان کی اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں دھاندلی کی اور فاطمہ جناح کو شکست ہوگئی۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب کی قیادت میں گروہ کی لالو کھیت گجرنالہ کے علاقے میں فائرنگ اور پھر ہونے والے مہاجر پٹھان فساد کی ہولناک یاد داشتیں ان کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ اس کتاب کا ایک باب 70کے انتخابات سے متعلق ہے جس میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا بھاشانی کے جلسہ کا ذکر کیا ہے۔ مولانا کرتا اور دھوتی پہنتے تھے مگر یہ بات درست نہیں ہے کہ محمود الحق عثمانی نیپ بھاشانی گروپ کے لالو کھیت سے امیدوار تھے۔ محمود الحق عثمانی نیپ ولی خان گروپ کے سیکریٹری جنرل تھے اور ان کے امیدوار تھے۔
شبر زیدی نے 2018ء میں معراج محمد خان سے بات چیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ معراج محمد خان کو پیپلز پارٹی نے لالو کھیت سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا تھا مگر معراج محمد خان نے انتخاب میں حصہ نہ لینے کی وجہ نہیں بتائی۔ دراصل معراج محمد خان پیپلز پارٹی میں طفیل عباس کی قیادت میں زیرِ زمین کام کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ پارٹی کے فیصلے کی بناء پر انھوں نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ شبر زیدی لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو میرا رہنما تھا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ شخص تھا اور غریب عوام کی حمایت کرتا تھا۔ شبر صاحب نے 1970 میں لاہور کے انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ ان کے نانا پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ایک تھے۔ ان کے نانا لاہور کے علاقے کرشن نگر میں رہتے تھے۔ اس علاقے میں اچھرہ بھی شامل تھا جو مولانا مودودی کی رہائش گاہ تھی۔
اس حلقہ سے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اور بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور کرکٹ کے معروف کھلاڑی عبدالحفیظ کاردار پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ شیخ رشید کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے اور ان کے محدود مالیاتی وسائل کی بناء پر یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ شیخ رشید کے کامیابی کے امکانات کم ہیں ۔ ان کے نانا شیخ رشید کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ شبر اپنے نانا کے غیر سرکاری معاون یا سیکریٹری بن گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر ووٹر ووٹ ڈالنے یا تو جماعت اسلامی کے فراہم کردہ تانگوں میں یا پیدل آئے۔ سب لوگوں نے جن میں عورتیں بھی شامل تھیں اپنے فرقہ اور ذات سے قطع نظر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتخاب میں شیخ رشید کرشن نگر کے پولنگ اسٹیشن سے 5ہزار ووٹ کی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
شام کو میاں طفیل محمد پولنگ اسٹیشن پر تشریف لائے۔ میرے نانا اور میاں طفیل کے درمیان زبردست جھڑپ ہوئی ۔ میرے نانا نے کہا کہ ’’ لاہور سے کوئی مذہبی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘ میاں طفیل نے نانا کو سخت جواب دیا۔ اس جھڑپ کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ نانا اردو میں بات کررہے تھے اور میاں طفیل ٹھیٹھ جالندھری پنجابی لہجہ میں گفتگو فرما رہے تھے۔ شیخ رشید نے انتخاب میں میاں طفیل کو 50 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ وہ لاہور میں منائے جانے والی بسنت کے تہوار کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کا یوں ذکر کیا ہے کہ لاہور میں اس دن کرفیو نہیں تھا مگر مکمل خاموشی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر رہنما گھروں میں نظربند کردیے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے انٹرنل نیٹ ورک میں ایجنسیوں نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔
بھٹو کی پھانسی کی خبر سن کر بہت سے لوگ صدمے میں چلے گئے تھے۔ انھیں یقین ہی نہیں تھاکہ بھٹو کو پھانسی دی جاسکتی ہے، وہ بھٹو کی پھانسی اور پنجاب کی سیاست کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ پنجاب کے لوگوں نے کھل کر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔‘‘ زیدی نے آڈٹ کی فرم میں آرٹیکل شپ، ملازمت اور پارٹنر شپ کے واقعات مزیدار انداز میں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں سرکاری دواخانوں کے اچانک آڈٹ کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا بھی ذکر کیا ۔ انھوں نے اپنی پروفیشنل لائف میں بہت بڑے اداروں کا آڈٹ کیا۔ وہ صنعتی اداروں کے قیام کے لیے قائم کیے جانے والے ادارہ پکک کے آخری دنوں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پکک صنعت کاروں اور تاجروں کو غیر ملکی اور پاکستانی کرنسی میں قرضے دیتی تھی اور ان قرضوں کی ادائیگی مقامی کرنسی میں ہوتی تھی۔ پکک صرف 5 فیصد منافع لیتی تھی جو تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے ایک طرح کا Bonanza ثابت ہوا تھا ۔
ایک وقت تھا کہ وزیر خزانہ سے زیادہ پکک کے منیجنگ ڈائریکٹرکو اہم سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب پاکستان متحدہ تھا تو بیشتر قرضے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں کو دیے گئے۔ شبر زیدی نے غریب اقلیتی فرقوں کے ساتھ معاشرہ میں ہونے والے بیہمانہ سلوک کا ذکر کیا ہے۔ وہ جب انسٹی ٹیوٹ آف چارٹر اکاؤنٹنگ کے صدر منتخب ہوئے تو انسٹی ٹیوٹ میں صفائی کے فرائض انجام دینے والے سویپر ان کے پاس آئے اور شکایت کی کہ انسٹی ٹیوٹ کے دوسرے ملازمین کی طرح انھیں مستقل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے یہ غریب سویپر ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن گریجویٹی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ شبر نے انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں کہ ان افراد کو مستقل ملازمت دی جائے مگر کچھ عرصہ بعد ان سویپرز نے شکایت کی کہ انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا ۔
اسی طرح انسٹی ٹیوٹ کے دروازے پر تعینات گارڈ انتہائی ذمے داری اور محنت سے فرائض انجام دیتا تھا۔ بقول مصنف انھیں بتایا گیا کہ گارڈز کی تنخواہ بہت کم ہے۔ زیدی نے منیجر کو ہدایات جاری کیں کہ گارڈ کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے مگر کچھ عرصہ بعد گارڈز نے شکایت کی کہ تنخواہ نہیں بڑھی تو منیجر سے وضاحت طلب کی گئی۔ منیجر نے جواب دیا کہ گارڈ لیاری میں رہتا ہے، پیدل انسٹی ٹیوٹ آتا ہے۔ اس کے لیے ملنے والی تنخواہ کافی ہے۔ (جاری ہے)