کوانٹم سالِ 2025ء

اقوامِ متحدہ نے 2025ء کو ’’عالمی سالِ کوانٹم سائنس و ٹیکنالوجی‘‘ قرار دے کر نہ صرف کوانٹم میکینکس کی ایک صدی مکمل ہونے کا اعتراف کیا ہے بلکہ کوانٹم دور کے آغاز کی عالمی سطح پر باضابطہ توثیق بھی کردی ہے۔ یہ اعلان اس امر کا تقاضا ہے کہ کوانٹم تحقیق اب محض علمی بحث نہیں، بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجی، صنعت، معاشیات اور عالمی نظمِ اجتماعی کی بنیاد بننے جا رہی ہے۔ دنیا اس نئے سائنسی انقلاب کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے اجتماعی ترقی کے ایک نئے باب میں داخل ہورہی ہے۔

انسانی ذہن کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے سربستہ رازوں کو کھولنے کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ سائنس کی تاریخ اسی سفرِجستجو کی داستان ہے، جہاں ایک سوال حل ہوتا ہے تو کئی نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔

طبیعیات کے میدان میں ہر چند برس بعد کوئی نہ کوئی ایسی دریافت سامنے آتی ہے جو انسانی علم کی بنیادیں ہلادیتی ہے اور ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم کائنات کے بنیادی ڈھانچے پر دوبارہ غور کریں۔ حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے ایک ایسی ہی انقلابی دریافت کی ہے جس نے نہ صرف نظری طبیعیات بلکہ عملی سائنس کے افق کو بھی روشن کردیا ہے۔ یہ دریافت ’’بھاری الیکٹرانز‘‘ یا ’’بھاری فرمیونز‘‘ کے بارے میں ہے، جو اپنی غیرمعمولی خصوصیات کی وجہ سے سائنس دانوں کے لیے عرصے سے تجسس کا باعث تھے۔

عام طور پر ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران مادے کے بنیادی ذرات ہیں جو نہایت ہلکے اور تیز رفتار ہوتے ہیں۔ مگر جب یہ الیکٹران کسی خاص دھات یا مرکب میں مقامی مقناطیسی الیکٹرانز کے ساتھ طاقت ور تعامل میں آتے ہیں تو ان کا مؤثر کمیت (ماس) کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یوں وہ عام الیکٹرانز کے مقابلے میں ’’بھاری‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔

یہ محض ایک علامتی بھاری پن نہیں بلکہ ان کی حرکت، توانائی کے پیمانے اور رویّے میں بنیادی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کو طبیعیات میں ’’بھاری فرمیون‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کی دریافت اور مطالعہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ فطرت میں ایسے غیرمتوقع مظاہر پوشیدہ ہیں جنہیں سمجھنا نہ صرف ہمارے سائنسی شعور کے لیے ضروری ہے بلکہ عملی ٹیکنالوجی کی نئی راہیں بھی کھول سکتا ہے۔

اوساکا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس شعبے میں ایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے۔ انہوں نے ’’سیریم۔رھوڈیم۔ٹن‘‘ نامی مرکب کا مطالعہ کیا، جس کی جالی نما ساخت کو ’’شَبکۂ کاغومی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ساخت اپنی ’’جیومیٹریائی اُلجھن‘‘ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس قسم کے نظام میں ایٹموں کی ترتیب ایسی ہوتی ہے کہ مقناطیسی یا برقی توازن ایک سیدھی لکیر میں قائم نہیں رہ سکتا بلکہ ہمیشہ ایک پیچیدہ حالت میں رہتا ہے۔

یہی کیفیت الیکٹرانز کو ایک غیرمعمولی انداز میں متاثر کرتی ہے۔ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں کیے گئے مشاہدات نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس مادے میں موجود بھاری فرمیونز کی ’’زندگی کی مدت‘‘ انتہائی مختصر ہو کر ’’پلینک لمحہ‘‘ کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ پلینک لمحہ طبیعیات میں سب سے بنیادی پیمانہ ہے، جسے اس کائنات کا سب سے چھوٹا لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پیمانے پر وقت کا عمومی تصور دھندلا جاتا ہے اور کوانٹم سطح کے قوانین غالب آ جاتے ہیں۔

یہ نتائج اس لیے زیادہ حیران کن ہیں کہ عموماً کوانٹم مظاہر نہایت کم درجۂ حرارت پر دیکھے جاتے ہیں۔ کمرے کے درجۂ حرارت پر یہ اثرات عموماً ماند پڑ جاتے ہیں اور الیکٹرانز اپنے روایتی رویّے میں واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن سی۔رھوڈیم۔ٹن کے اندر بھاری فرمیونز کا غیرمعمولی رویّہ کمرے کے درجۂ حرارت تک برقرار رہتا ہے۔ یہ ایک انقلابی پیش رفت ہے کیونکہ اگر کوانٹم ’’الجھاؤ‘‘ جیسی نازک کیفیت عام درجۂ حرارت پر مستحکم رہ سکتی ہے تو یہ عملی طور پر کوانٹم ٹیکنالوجی کو روزمرہ زندگی کے قریب لے آنے کے مترادف ہے۔

تحقیقی ٹیم نے الیکٹرانز کے توانائیاتی طیف کا مطالعہ کیا تو انہیں ایسے نقش و نگار ملے جنہیں ایک ہی مساوات سے بیان کیا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ قوی شہادت ملی کہ یہ الیکٹران دراصل ’’کوانٹم الجھاؤ‘‘ کی حالت میں ہیں۔ کوانٹم الجھاؤ وہ حیرت انگیز مظہر ہے جس میں دو یا زیادہ ذرات آپس میں اس طرح جُڑ جاتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر اثر ڈالنے سے دوسرے پر بھی فوری اثر ہوتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی فاصلے پر کیوں نہ ہوں۔ آئن اسٹائن نے اسے طنزیہ انداز میں ’’فاصلہ پر پراسرار عمل‘‘ کہا تھا، مگر آج یہ کوانٹم طبیعیات کی ایک بنیادی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اوساکا یونیورسٹی کی ٹیم نے پہلی مرتبہ براہ راست یہ دکھایا کہ بھاری فرمیونز کی عجیب و غریب خصوصیات دراصل اسی کوانٹم الجھاؤ کا نتیجہ ہیں۔

ڈاکٹر شِن اِیچی کیمورا، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے تھے، نے وضاحت کی کہ ان کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھاری فرمیونز ایک ’’کوانٹم نازک حالت‘‘ میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ الجھاؤ ’’پلینک لمحے‘‘ کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ذرات فطرت کے سب سے بنیادی وقت کے پیمانے پر جڑے ہوئے ہیں۔

یہ دریافت محض نظریاتی کام یابی نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی اس کے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آج کے کمپیوٹر ’’دو حالتی نظام‘‘ پر چلتے ہیں، جہاں ہر خانہ (بِٹ) صرف دو حالتوں، یعنی صفر یا ایک، میں ہوتا ہے۔ لیکن کوانٹم کمپیوٹر ’’کوانٹم خانوں‘‘ کا استعمال کرتے ہیں جو ایک ہی وقت میں صفر اور ایک دونوں حالتوں میں رہ سکتے ہیں، یعنی ’’بالائے تداخل‘‘ کی حالت میں۔ اس سے حسابی طاقت اور رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ تاہم، کوانٹم کمپیوٹنگ کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ کوانٹم خانے نہایت نازک ہوتے ہیں اور معمولی سا بیرونی ماحول ان کے الجھاؤ کو توڑ دیتا ہے۔ اگر بھاری فرمیونز میں پائے جانے والے یہ پائے دار حالتیں قابو میں آ جائیں تو کوانٹم کمپیوٹرز میں ایک بالکل نئی ساخت سامنے آ سکتی ہے جو کمرے کے درج? حرارت پر بھی مؤثر رہے گی۔

مزید یہ کہ اس تحقیق نے طبیعیات کے ایک اور اہم تصور یعنی ’’غیرفرمی مائع‘‘ کے رویّے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ عام دھاتوں میں الیکٹرانز کو ’’فرمی مائع نظریہ‘‘ کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے، مگر سی۔رھوڈیم۔ٹن جیسے مرکبات میں الیکٹرانز اس سادہ ماڈل پر پورا نہیں اترتے۔ اوساکا یونیورسٹی کی ٹیم نے دکھایا کہ یہ غیرمعمولی رویّہ دراصل کوانٹم الجھاؤ کا نتیجہ ہے۔

اگر مستقبل میں سائنس داں اس الجھاؤ کو قابو میں لانے میں کام یاب ہوگئے تو یہ نہ صرف کوانٹم کمپیوٹرز بلکہ کوانٹم معلوماتی عمل کاری، کوانٹم مواصلات اور حتیٰ کہ کوانٹم توانائیاتی ٹیکنالوجیوں میں بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ سی۔رھوڈیم۔ٹن میں بھاری فرمیونز کا مشاہدہ سائنس کے سفر میں ایک سنگ میل ہے۔ یہ نہ صرف اس بات کا براہ راست ثبوت فراہم کرتا ہے کہ کوانٹم الجھاؤ ٹھوس مادّوں میں بھی فعال رہ سکتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ الجھاؤ ’’پلینک لمحے‘‘ جیسے بنیادی پیمانے پر کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ دریافت ہماری کائنات کی تفہیم کو ایک نئی جہت فراہم کرتی ہے اور ٹیکنالوجی کے مستقبل کے دروازے کھولتی ہے۔

کوانٹم کمپیوٹنگ، سائنس کی تاریخ میں وہی مقام رکھتی ہے جو کبھی ایٹمی توانائی یا ڈیجیٹل انقلاب کو حاصل تھا۔ یہ ایک ایسی فکری و سائنسی سرحد ہے جو علم، طاقت اور امکانات کی نئی دنیا کھول رہی ہے۔

ڈاکٹر رچرڈ فائن مین نے 1981ء میں کہا تھا

’’قدرت خود کوانٹم انداز میں کام کرتی ہے، اس لیے اگر ہم قدرت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوانٹم انداز میں ہی حساب لگانا ہوگا۔‘‘

یہی فلسفہ آج حقیقت بن رہا ہے۔ اب انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا تو وہ اس طاقت کو اخلاقی و انسانی خدمت میں استعمال کرے، یا اسے ناپسندیدہ مسابقت کا ذریعہ بنا دے۔ کامیابی اسی میں ہے کہ کوانٹم علم کو انسانی فلاح، مساوات اور پائے دار ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے۔

Similar Posts