عسکری قیادت کا دوٹوک موقف

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں کوئی خفیہ کارروائی نہیں کی، پاکستان جب بھی کسی مقام پر کارروائی کرتا ہے تو کھلم کھلا اعلان کرکے کرتا ہے،سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہے جو ریاست کی حیثیت سے ہی ردعمل دیتا ہے۔ہم نے انڈیا کو گرایا تو اپنی سیکیورٹی خود کی ، کسی کے سامنے گڑگڑائے نہیں، ہماری نظر میں کوئی گڈ یا بیڈ طالبان نہیں، تمام دہشت گردوں کے ساتھ یکساں رویہ اپنایا جاتا ہے۔

 پاکستان اس وقت کئی دہائیوں کے بعد ایک بار پھر ایسے سنگین چیلنجز کے سامنے کھڑا ہے جو ریاستی ذمے داری، سرحدی تحفظ، داخلی سلامتی اور معاشی باقاعدگی کے بنیادی سوالات کو نہایت شدت سے اُجاگر کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا حالیہ بیان نہ صرف زمینی حقائق کا آئینہ دار ہے بلکہ ملکی پالیسی کے لیے نئی سمت بھی متعین کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے نکات میں جہاں عسکری وضاحت ہے، وہیں ملکی حکمرانی، سرحدی نظم و ضبط اور داخلی انتظامی امور پر بھی کھلے الفاظ میں توجہ دلائی گئی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا کہ پاکستان نے گزشتہ شب افغانستان میں کوئی کارروائی نہیں کی، اور یہ کہ پاک فوج ’’چھپ کر حملہ نہیں کرتی‘‘ ایک نہایت اہم سفارتی پیغام ہے۔ خطے میں افواہوں اور پروپیگنڈہ کے ایسے ماحول میں یہ مؤقف دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پاک فوج کی طرف سے یہ وضاحت کہ پاکستان کا مسئلہ افغان عوام سے نہیں بلکہ عبوری حکومت کے رویے سے ہے، تعلقات میں دراڑ نہیں بلکہ شفافیت کی نشاندہی کرتی ہے۔

ریاست پاکستان بارہا واضح کر چکی ہے کہ سرحد پار موجود دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں ترجمان کا یہ کہنا کہ ’’ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں‘‘ ایک بڑا پالیسی سنگ میل ہے جسے ماضی میں مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا رہا۔دوسری جانب مختلف رپورٹس، تجزیات اور سفارتی حلقوں کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بھارت سیکیورٹی مقاصد کے لیے افغانستان میں موجود ایسے گروہوں یا عناصر تک رسائی برقرار رکھنا چاہتا ہے جنھیں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال کیا جا سکے۔

یہ تاثر صرف پاکستان کے سیکیورٹی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ خطے کے غیر جانب دار تجزیہ کار بھی اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ بھارت کے لیے افغانستان ہمیشہ سے’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘کا ایک الٹا ماڈل رہا ہے یعنی پاکستان کو مغربی سرحد سے دباؤ میں لانے کا موقع۔پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں خود دہشت گردی کی ایک طویل اور تباہ کن جنگ لڑ چکا ہے۔

ہزاروں جانوں کی قربانیاں، کئی دہائیوں کا معاشی نقصان، اور داخلی عدم استحکام نے پاکستانی ریاست اور عوام دونوں کو مسلسل آزمائشوں سے گزارا۔ ایسے حالات میں اگر بھارتی ادارے یا ریاستی پالیسی ساز افغانستان کے بعض گروہوں کو پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف خطے میں مزید بے چینی کا باعث بنتا ہے بلکہ افغانستان کو بھی عدم استحکام کے ایک نئے دور میں دھکیل سکتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کا داخلی ڈھانچہ ابھی مکمل طور پر مستحکم نہیں۔ وہاں مختلف قبائلی، سیاسی اور نظریاتی گروہ اب بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں، چونکہ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے بیرونی سالمیت کے خلاف سازشیں، فنڈنگ کے نیٹ ورک اور پراکسی سرگرمیوں کا انسداد ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ بھارت جیسے ممالک کے لیے یہی غیر یقینی صورتحال ایک ایسا میدان فراہم کرتی ہے جہاں وہ اپنے تزویراتی مقاصد کے لیے متحرک عناصر کو استعمال کر سکتے ہیں۔اسی پس منظر میں بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی جاری ہے۔

عالمی فورمز پر پاکستان کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرنا، مختلف ممالک کو پاکستان کے خلاف ہموار کرنا یا سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا نیٹ ورک چلانا وہ عوامل ہیں جو پراکسی حکمت عملی کو تقویت دیتے ہیں۔ عسکری پراکسی سے لے کر سفارتی پراکسی تک، بھارت اپنی پالیسیوں کے کئی پہلوؤں کو بیک وقت پاکستان کے گرد دائرہ تنگ کرنے کے لیے استعمال کرتا نظر آتا ہے۔تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ افغانستان کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کا عمل افغانستان کے عوام کے لیے تباہ کن نتائج لاتا ہے۔

افغان عوام پہلے ہی چار دہائیوں سے جنگ، بیرونی مداخلت، معاشی تباہی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، اگر علاقائی طاقتیں افغانستان کو اپنی جنگوں کا میدان بناتی رہیں، تو یہ ملک کبھی بھی حقیقی امن، ترقی اور استحکام کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکے گا۔پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے امن کا راستہ اس میں ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی جائے، اور خطے میں بڑے ممالک کی پراکسی کی گنجائش کم سے کم ہو۔

بھارت اگر واقعی خطّے میں امن چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ افغانستان کو ایک آزاد، خودمختار اور مستحکم ریاست کے طور پر قبول کرے، نہ کہ اسے اپنی تزویراتی جنگ میں ایک مہرہ بنائے۔افغان طالبان حکام کو ’’غیر ریاستی عناصر کی طرح فیصلہ نہیں کرنا چاہیے‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب بہت واضح، سیدھی اور غیر مبہم زبان میں اپنے تحفظات بیان کر رہا ہے۔ طالبان عبوری حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی حکمرانی کا انداز براہ راست سرحدی سلامتی کو متاثر کرتا ہے۔پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی مسلح گروہ یا شدت پسند سوچ کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک مستقل پالیسی کا اعلان ہے کہ اب کسی غیر ریاستی عنصر کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کو درپیش داخلی سلامتی کے چیلنجز میں سب سے بڑا خطرہ وہ غیر قانونی معیشت ہے جو سرحدی اسمگلنگ سے پھلتی پھولتی ہے۔

 ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبر پختونخوا حکومت کی کمزور پالیسیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ بات کسی الزام تراشی کا حصہ نہیں بلکہ ایک ریاستی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ 1229 کلومیٹر طویل بارڈر پر انتظامی کمزوری دشمن کے لیے کھلی دعوت ہے۔افغانستان کے ساتھ قبائلی روایات، مذہبی روابط اور معاشی انحصار کی وجہ سے یہاں کی انتظامیہ کو مزید فعال، حاضر دماغ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا ہوگا۔گو بلوچستان میں ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کم ہونے کے بعد حالات میں واضح بہتری آئی ہے، مگر اصل چیلنج اب بھی موجود ہے: دہشتگردی کی ممکنہ واپسی، معاشی محرومی اور بیرونی مداخلت۔ ترجمان کے مطابق بلوچستان میں خیبر پختونخوا کے مقابلے میں زیادہ کارروائیاں ہوئیں، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ ترقی، سیاسی ہم آہنگی اور سرکاری عمل داری کو برقرار رکھا جائے۔

ترجمان کا یہ مشاہدہ کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے بیانیے میں نمایاں فرق نہیں دکھائی دیتا، لمحہ فکریہ ہے‘ یہ جملہ دراصل پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔دو ریاستوں کے درمیان بنیادی تعلقات اسی وقت بہتر ہوسکتے ہیں جب دہشت گرد گروہوں کو کسی قسم کی خاموش حمایت حاصل نہ ہو۔پاکستان میں ریاستی رٹ قائم رکھنا صرف عسکری اداروں کی ذمے داری نہیں بلکہ پورے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کا مشترکہ فرض ہے۔ کوئی بھی گروہ، خواہ مسلح ہو یا شدت پسندانہ سوچ کا حامل، اگر ریاست کے قوانین سے بالاتر ہونے کا خیال کرے تو اسے سختی سے روکا جانا لازمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترجمان کا مذہبی، سیاسی اور مسلح جتھوں کے حوالے سے واضح مؤقف قومی اتفاقِ رائے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فتحیاب ہوگا ، مگر اس کے لیے ہمیں اپنا گھر خود بھی درست کرنا ہوگا۔یہ جملہ پاکستان کے اجتماعی مسئلے کا جامع خلاصہ ہے۔ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ سرحدوں پر سیکیورٹی کی بہتری کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی ایسی پالیسیاں، اصلاحات اور انتظامی اقدامات ضروری ہیں جن سے ریاست اور عوام دونوں محفوظ رہیں۔

جب تک سیاسی قیادت باہمی تصادم سے نکل کر قومی سلامتی کو ترجیح نہیں دے گی،جب تک صوبائی حکومتیں سرحدی علاقوں میں مضبوط حکمرانی قائم نہیں کریں گی،جب تک غیر قانونی معیشت کا خاتمہ نہیں ہوگا،اور جب تک دہشت گردی کے بیانیے کو فکری سطح پر شکست نہیں دی جائے گی،ملک مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوسکتا۔پاک فوج کے ترجمان کے بیان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ یہ جنگ صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے سیاسی بصیرت، انتظامی سنجیدگی، معاشی شفافیت، اور عوامی حمایت کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا داخلی حکمرانی، احتساب کا عمل ہو یا سرحدی سیکیورٹی تمام محاذوں پر پاکستان کو مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے۔اگر ریاست بھی اپنا کردار ادا کرے، حکومت بھی ذمے دارانہ رویہ اپنائے، اور عوام بھی قومیت کے جذبے سے سرشار ہوں، تو یقیناً ہم دہشت گردی کے خلاف اس طویل جنگ میں فتحیاب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

Similar Posts