عورتیں تھکی ہاری انتظار میں رہتی ہیں کہ ایک اسٹیشن آئے گا، مزدور کے کندھے کا درد بڑھ جاتا ہے جب تم لیٹ ہو جاتے ہو اور وہ بوڑھا مسافر اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے سوچتا ہوگا شاید کہ انگریز سرکار کے دور میں جب میں جوان تھا، ٹرین تو ایک سیکنڈ بھی لیٹ نہیں ہوتی تھی۔ شاید اس کی یاد داشت میں یہ بات بھی ہو کہ جب ٹرین پہنچتی تو ہم اپنی گھڑیاں درست کر لیتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی گھڑیوں پر اعتماد نہ تھا جتنا کہ ٹرین کے رائٹ ٹائم پر پہنچنے کا۔ ٹرین کے انجن نے یہ جواب دیا ہو کہ میرا قصور نہیں ہے، یہ نظام کی خرابی ہے۔
ریلوے نظام کی اصلاح کی باتیں تو کئی دہائیوں سے ہو رہی تھیں لیکن اب وزیر اعظم نے زور دے کر کہا ہے کہ ریلوے نظام کسی ملک کی معیشت اور مواصلات کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اصلاح اور اپ گریڈیشن بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی معیار کے قانونی اور معاشی ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ ریلوے سے متعلق منصوبہ بندی میں بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ ٹرین میں سفر کے دوران بہت ہی چھوٹے چھوٹے مسئلے بھی ہوتے ہیں جن کے حل کے لیے بین الاقوامی ماہرین کیا کر سکتے ہیں۔
ٹوائلٹ ہے پانی نہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے کی 65 فی صد ٹرینوں میں پانی کی فراہمی کے لیے کئی ارب روپے مختص کیے ہیں مگر پانی پھر بھی نہیں آتا۔ ایک مسافر ٹکٹ دکھا کر عملے کے کسی رکن سے پوچھتا ہے کہ اس ٹکٹ پر سیٹ نمبر بھی ہے اور بوگی نمبر بھی لکھا ہے لیکن پوری ٹرین میں بوگی موجود نہیں۔ جواب ملتا ہے کہ گارڈ سے پوچھیں، یعنی جو شخص صحیح جواب دے سکتا ہے، بوگی کے ساتھ ساتھ وہ بھی غائب، وہ بھی دستیاب نہیں۔ اب ریلوے کے اس نظام کا باہر والے آ کرکیا کریں گے؟ جہاں ریلوے کے افسران اور ملازمین کو ہی احساس نہ ہو۔ وہ اے سی روم میں بیٹھے ہوتے ہیں اور عوام رُل رہی ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے تقریباً 40 فی صد تاخیر کا شکار رہتی ہے جب کہ میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ جب بھی ٹرین سے سفر کیا ہمیشہ لیٹ ہی لیٹ اور کسی کو لینے گئے جب بھی ٹرین کئی کئی گھنٹے لیٹ آتی ہے۔ ریلوے پاکستان کے غریب عوام کی سواری ہے، اگر یہ درست ہو جائے تو قوم کا بھی نظام الاوقات درست ہو جائے۔ حکومت بین الاقوامی ماہرین کو فوراً بلانے کا بندوبست کرے۔ اس کے ساتھ ایران کے ٹرین سسٹم کا مطالعہ بھی کر لیا جائے۔
بہت سی باتیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ریلوے کا ایک بڑا نظام بھارت چلا رہا ہے، پورا یورپ ریلوے کے نظام سے جڑا ہوا ہے، اس کے ساتھ مال گاڑیوں کا نظام الاوقات درست ہونا چاہیے۔ٹرین کے سفر کے دوران یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر کئی بوڑھے تھکے ماندے زنگ آلود انجن بھی کھڑے ہوتے ہیں۔
وہیں کہیں وہ بوگی بھی چھپ کر کھڑی ہوتی ہے جسے ٹرین کے ساتھ جوڑنا تھا جس کا بوگی نمبر، سیٹ نمبر برتھ کا بھی ٹکٹ بک کر لیا گیا ہوگا۔ مگر حکام نے سوچا ہوگا یہ بوگی تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مرمت کی طلب گار ہے، اس کے پہیوں میں جان ہی نہیں، اس کا رنگ اکھڑا ہوا ہے، بہتر یہ ہے کہ اس بوگی کو ہی روک لیتے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے وہ تو ٹوائلٹ کے سامنے بیٹھ کر بھی اپنی منزل تک پہنچ ہی جائیں گے۔
وزیر اعظم کے بلانے پر بین الاقوامی ماہرین بھی آ جائیں گے، اپنا لائحہ عمل بھی دے جائیں گے، منصوبہ بندی بھی کر جائیں گے، ٹرینوں کی حالت بھی درست کروا جائیں گے اور بہت کچھ ہو جائے گا لیکن آخر میں ٹرینیں چلانے کی ذمے داری یہیں کے حکام، افسران، ملازمین کی ہوگی۔ اگر سب کو اپنی ڈیوٹی، اپنی ذمے داری کا احساس ہو جائے تو پاکستان ریلوے کا آدھا نظام ویسے ہی درست ہو جائے اور مسافروں کو بھی شکایات نہ ہوں۔