دنیا ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کی گہما گہمی میں الجھی ہوئی ہے، اور یمن کا بحران عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے تیز کر دیے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں سے حوثیوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اب مزید امریکی یا اسرائیلی جہازوں پر حملہ نہیں کریں گے۔
تاہم، معتبر امریکی اخبار دی نیویارک ٹائمز نے صدر کے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ یہ حملے نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں، بلکہ امریکی دفاعی حکام خود بھی اس ناکامی کو تسلیم کر چکے ہیں۔
حقیقت کیا ہے؟
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ حوثیوں کے زیرِ زمین اسلحہ کے ذخائر کو مؤثر طریقے سے نشانہ نہیں بنا پا رہا۔ ایران سے منسلک حوثی باغیوں نے جنگی حکمتِ عملی میں ایسی مہارت حاصل کر لی ہے کہ وہ امریکی حملوں سے بچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
امریکہ سمیت دنیا بھر میں ٹرمپ اور ایلون مسک کیخلاف مظاہرے، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے
اگرچہ امریکہ نے یمن میں حملوں کے لیے 200 ملین ڈالر کے ہتھیار استعمال کیے ہیں، اور دو طیارہ بردار بحری جہاز بھی تعینات کیے گئے ہیں، پھر بھی توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ تخمینہ ہے کہ اگلے ہفتے تک یہ خرچ ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ادھر، اسرائیل کے غزہ میں کیے گئے اقدامات کے بعد حوثیوں نے امریکی و اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا تیز کر دیا ہے۔ ریڈ سی (بحر احمر) میں ان حملوں کے باعث نہ صرف سمندری ٹریفک متاثر ہو رہی ہے بلکہ عالمی تجارت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
سوالیہ نشان؟
یہ صورتِ حال کئی سوالات کو جنم دیتی ہے،
کیا صدر ٹرمپ زمینی حقائق سے ہٹ کر محض سیاسی بیانات دے رہے ہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کا پہلا دورہ پاکستان، امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار سمیت وفد اگلے ہفتے آئے گا، ذرائع
کیا امریکی فضائی کارروائیاں واقعی کوئی نتیجہ خیز تبدیلی لا رہی ہیں یا محض وقت اور وسائل کا زیاں ہو رہی ہیں؟
امریکہ کی موجودہ حکمتِ عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا حوثیوں کی طاقت کو کمزور سمجھا جا رہا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے والے دنوں میں عالمی سیاست پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔