عقیدۂ فکر آخرت میں اعمال کی اصلاح

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا! اسے خلافت و نیابت سے سرفراز فرمایا، عقل و شعور کی لازوال نعمت سے مالامال کیا۔ لیکن انسان اپنی مادی اور سائنسی ترقی کے باوجود آج بے چین و مضطرب ہے اس کے فکر کے افق پر خوفناک اندیشوں اور کرب ناک تصورات کے بادل چھائے رہتے ہیں۔

نرم و گداز صوفوں اور بستروں پر بیٹھ کر بھی اسے سکون و راحت اور سرور و اطمینان نہیں ملتا۔ نہ جانے کیسی کیسی رنگینیاں اس کے سامنے آتی ہیں اور ان کے ذریعے و ہ طمانیت کے سامان حاصل کرنا چاہتا ہے مگر اپنے مقاصد میں کام یاب نہیں ہوپاتا۔ دولت کے انبار اس کے سامنے لگے رہتے ہیں، نوٹوں کے بستر پر بھی یہ سو سکتا ہے مگر پھر بھی راحت و آرام میسر نہیں آتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا سبب کیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟

قرآنِ حکیم وہ صحیفہ ربانی ہے جو خالقِ کائنات نے دُنیائے انسانیت کے رشدوہدایت کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺپر نازل فرمایا اور اس مقدس رسول ﷺ کے ذریعے یہ نسخہ کیمیاء ہمیں عطا فرمایا جو خود بھی ہر قسم کی خامی سے پاک ہے اور اس کے ساتھ انسانی زندگی کے کسی شعبے میں سیاسی، معاشی، قانونی اور اخلاقی جہاں کوئی کجی یا خامی، افراط و تفریط پائی جاسکتی ہے۔

اس کی اصلاح اور درستی کی بھی پوری صلاحیت واستعداد رکھتا ہے۔ اس مقدس کتاب سے ہی ہمیں مذکورہ بالا عبارتوں کا جواب مل سکتا ہے کہ آخر سکون و آرام آج انسان کو کیوں میسر نہیں آتا۔ آئیے فصاحت و بلاغت سے لبریز یہ پیارے کلمات تلاوت کیجیے۔ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔ترجمہ:’’خبرداراﷲ کا ذکر دلوں کا چین ہے۔‘‘

معلوم ہوا سکون اور اطمینان تو ذکر اﷲ میں ہے لیکن ذکرِ خداوندی اور عبادت ربانی سے غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں دردر کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود اطمینان اور چین کی زندگی نہیں مل پاتی ہے۔

دنیا اور مال کی محبت اور ان میں حد سے زیادہ انہماک ہی کا یہ بُرا نتیجہ ہے کہ آج قوم مسلم کے سروں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ظلم و ستم، سرکشی وعدوان کی انتہا ہورہی ہے، ظالم اپنی پوری قوت بازو اس کو نیست و نابود کردینے میں صرف کررہا ہے۔ امتیاز و تشخص کے خلاف ہر چہار جانب سے مختلف قسم کے حملے کیے جا رہے ہیں۔ نت نئے حربے اور اسلحے اس کی تباہی اور بربادی کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مگر ہمیں اس کی فکر ہی نہیں ہوتی کہ آخر کس طرح ہم ان تمام حملوں سے خود کو بچانے کی تراکیب کرسکتے ہیں ۔

یہ دنیا اور اس کے تمام سازوسامان، زینت اور آرائش کے طریقے سب کے سب فانی ہیں۔ اس دنیائے فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن ضرور یہاں سے اپنا رختِ سفر باندھنا اور دوسری جگہ کی تیاری کرنا ہے۔

یہ ناپائے د ار دنیا اس قابل نہیں کہ اس میں جی لگایا جائے اور اس کی محبت میں دل بستہ اور اس کی چاہت میں ایسے حواس باختہ ہوجائیں کہ اپنے خدا کو اور اپنے انجام کو بھی فراموش کردیں۔ اس دنیا کی محبت، اس کے سازوسامان میں انہماک اور حد سے زیادہ اس کی رنگینیوں میں ملوث رہنے والے مسلمان اپنے پیار ے آقا ہادی دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یہ ارشادات عالیہ تو بغور پڑھیں، سرکار مدینہ ﷺفرماتے ہیں:’’اس شخص پر انتہائی تعجب ہے جو جنت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سر گرم رہے ۔‘‘

ایک اور حدیث پاک میں رسولِ رحمت ﷺ نے فرمایا کہ:’’دنیا سبز(خوش آئند) اور شیریں ہے اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے بنی اسرائیل پر جب دنیا فراخ کردی گئی تو انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں زیورات، کپڑوں، عورتوں اور عطریات کے لیے وقف کردی تھیں اور انکا انجام تم نے دیکھ لیا۔‘‘

ا س طرح کئی ایک احادیث کریمہ میں دنیا اور مال دنیا میں دل نہ لگانے کی تاکید کی گئی ہے اور دنیا کی مذمت کی گئی ہے، جنہیں پڑھ کر ایک سلیم العقل اس جہانِ فانی کی محبت اور لگاؤ کو یقیناً اپنے دل سے نکال دے گا۔ ہماری بربادی کی اور بہت سی وجوہات اور اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے آج محبت دنیا اور انہماک مال و دولت میں یومِ آخرت کو بھی فراموش کردیا ہے۔

تصور آخرت سے ہم بالکل غافل ہوچکے ہیں، جب کہ اسلام میں آخرت کی یاد میں بڑی تاکید یں آئی ہیں۔ ہر دنیا دار کو اس فانی اور ناپائے دار دنیا سے رخت سفر باندھ کر عالم جاودانی کی طرف ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے جس کی حقیقت کا انکار ممکن نہیں، جہاں ماں باپ، اولاد و اقارب، دوست و احباب کوئی بھی کام آنے والا نہیں، تو جب یہ مبنی بر حقیقت بات ہے کہ عالم آخرت کی طرف سب کا گذر ہوگا پھر اس کی تیاری کیوں نہیں کی جاتی؟

قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کو بے نقاب کیا گیا ہے کہ دنیاوی زندگی تھوڑی ہے۔ اخروی زندگی ہی کام آنے والی ہے اور وہی طویل ہے مگر پھر بھی یہ دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا غافل انسان اپنی ساری جدوجہد اور دوڑ دھوپ فقط دنیوی زندگی کو باعزت اور آرام دہ بنانے کے لیے وقف کر رہا ہے اور اسے اپنی عاقبت سنوار نے کا خیال بھی نہیں آتا۔ جوں جوں دنیا کی محبت اسکے دل میں گھر بناتی جاتی ہے یہ غافل انسان اتنا ہی فکرِآخرت سے دور ہوتا جاتا ہے۔

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے

اسلام میں آخرت کا تصور بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس کی بہت زیادہ تیاری کی تاکیدیں کی گئی ہیں۔ کہیں فرمایا گیا ہے: ولدارالاٰخرۃ خیر للذین اتقوا افلا تعقلون۔کہیں ارشاد ہوا :قل متاع الدنیا قلیل والاٰخرۃ خیر لمن اتقیٰ۔

حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمۃ اﷲ علیہ ایک جگہ اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’حضور سرور دو عالم ﷺ کی ہر بات ویسے تو اہل مکہ کے لیے حیرت انگیز تھی وہ لوگ حضور ﷺ کی باتیں سنتے اور حضور ﷺ کے اعمال کا مشاہدہ کرتے تو ان پر عجیب قسم کی سراسیمگی طاری ہوجاتی۔ سب سے زیادہ جس چیز نے انہیں پریشان کر رکھا تھا وہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ اس جہان رنگ و بو کے بعد ایک اور جہاں بھی ہے اس چند روزہ زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی بھی ہے جس کی انتہا نہیں۔ قیامت کے دن انہیں اور ان کے آباؤ اجدادکو قبروں سے نکال کر رب کائنات کے سامنے پیش کیا جائی گا اور وہاں ان سے ان کے چھوٹے بڑے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ ان کی عقل جس پر انہیں بڑا گھمنڈ تھا وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی۔

ہزاروں صدیوں کی پہنائیوں میں ان کی مشت غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کون جمع کرے گا اور پھر ان میں روح کیسے پھونکی جائے گی وہ اس مسئلہ پر شب و روز غور کرتے، حضور ﷺ سے بحث و تمحیص کرتے۔ ان کی مجلسوں میں اس موضوع پر گرما گرم مذاکرے ہوتے لیکن وہ کسی صورت میں وقوعِ قیامت کو ماننے کے لیے تیار نہ پاتے۔ اس نہ ماننے میں ایک نفسیاتی جھجھک بھی سدراہ بنی ہوئی تھی اگر وہ وقوعِ قیامت کو تسلیم کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا نقشہ تلپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس معاشرے میں انہیں لوٹ کھسوٹ کی جو آزادی میسر تھی عیش و طرب کی محفلیں جن میں لاہوش اور بدمست جوانیاں ساری رات محو رقص رہا کرتیں۔ بادۂ ارغوانی کے بلوریں جام مصروف گردش رہتے جہاں کسی ضرورت مند کا استحصال مباح تھا جہاں قرض خواہ اپنے مقروض سے من مانی شرح پر سود لیا کرتا تھا۔

اگر وہ روزحساب پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو تمام لغویات سے دستِ کش ہونا پڑتا جس کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ اس سنگ گراں کو ان کی راہ سے ہٹانے کے لیے قرآن کریم میں متعدد بار بڑے زوردار دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ پہلے دو ٹوک الفاظ میں یہ بتادیا گیا ہے کہ تمہارے انکار سے حقیقت بدل نہیں سکتی قیامت برپا ہوگی۔ تم خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو گے اور اس کا اعتراف بھی کرو گے۔ لیکن اس وقت تمہارا قیامت پر ایمان لانا تمہیں جہنم سے بچانہ سکے گا۔ پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دینا کہ ان کے منتشرذروں کو کیسے جمع کیا جائے گا بتادیا کہ ان ذروں کو جمع کرنے والا قادر مطلق اور حکیم و علیم اﷲ تعالیٰ ہے جس کے لیے تمہیں، ازسرِنو زندہ کرنا قطعاً مشکل نہیں ہے۔

اس کے بعد قیامت برپا کرنے کی حکمت بتائی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک انسان ساری عمر لوگوں پر ظلم و ستم کرتا رہے، غریبوں کو لوٹتا رہے، اپنے خالق کی نافرمانی کرتا رہے اور دوسرا شخص ساری عمر بنی نو ع انسان کی خدمت کرتا رہے۔ دکھیاروں کی غم گساری، محتاجوں کی امداد، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی کرتا رہے۔ اپنے رب کریم کی اطاعت سے سرمو انحراف نہ کرے ان دوشخصوں کے عملوں میں اتنے سنگین تفاوت کے باوجود اس کا نتیجہ یکساں رہے۔ اس سے بڑی نا انصافی کیا ہوسکتی ہے بتادیا کہ قیامت برپا کرنے میں حکمت الہٰی یہ ہے کہ بدکاروں کو ان کی بدی کی سزادی جائے اور نیکوں کو انکی نیکی کا اجرِعظیم مرحمت فرمایا جائے۔‘‘ (ضیاء القرآن ،جلد5)

اس طرح کفارو مشرکین جو مال و اسباب فانی پر تکیہ کر کے صرف دنیوی زندگی میں راحت و سکون اور کام یابی اور کام رانی کا تصور کیے ہوئے تھے ان کو طرح طرح کی حکمتوں اور دلائل سے یومِ آخرت و یومِ قیامت کا ثبوت دیا گیا اور بتایا گیا کہ ان حجتوں اور دلیلوں کے بعد بھی اگر وہ یومِ آخرت اور یومِ جزا پر اایمان و عقیدہ نہ رکھیں تو پھر اپنا انجام دیکھ لیں گے۔

قرآن مجید کی کئی ایک آیات میں اتنے موثر پیرائے میں بیان سمجھایا گیا اور قیامت اور آخرت کے بارے میں جن شکوک و شبہات میں وہ بُری طرح گرفتار تھے کئی قسمیں کھا کر انکا ازالہ کیا گیا ہے کہ جن کو پڑھ کر ایک فکر رکھنے والا کسی قسم کی چون و چرا کی جرأت نہیں کرسکتا انہیں بتا دیا گیا کہ وہ ذات پاک ہے جس کا علم اتنا وسیع اور محیط ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو وہ جانتا ہے اس کے آغاز کی بھی اسے خبر ہے اور اس کے انجام کار پر بھی وہ آگاہ ہے جس کے جودوسخا کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے جان دار کو اس کی مخصوص خوراک، مطلوبہ مقدار میں مناسب اوقات پر فراہم کر رہا اور جس کا علم اتنا محیط جس کا دسترخوان کرم اتنا وسیع جس کی قدرت اتنی بے پایاں ہو کیا۔ اس کی الوہیت میں شک کی کوئی گنجائش ہے؟

اور اس کے سوا اور کوئی ایسا ہے جس میں ان کمالات کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ خدائی اور الوہیت میں وہ اس کے شریک ہونے کا مدعی بن سکے اور کیا ایسی قادر و تواناہستی کے لیے تمہیں مارنے کے بعد زندہ کرنا کوئی مشکل کام ہے ہر گز نہیں ۔‘‘

فانی دنیا میں دل لگانے کی بجائے آخرت کی فکر کرنے کے سلسلے میں احادیث نبویہ میں بھی جابجا تاکید آئی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں انسان جو بھی بوئے گا اس کا ثمر وہ اخروی زندگی میں ضرور پائے گا۔ رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ اور ہر مقام پر اپنی گنہگار امت کو یاد رکھا اور اس کی بخشش کے لیے دعائیں فرمائیں۔ نیز اپنے چاہنے والوں کی ہر جگہ راہ نمائی فرمائی۔ فکرِآخرت کی تاکید فرماتے ہوئے ایک مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں تم پر دو چیزوں کے تسلط سے ڈرتا ہوں لمبی اُمیدوں اور خواہشات کی پیروی، بے شبہ طویل امیدیں آخرت کی یاد بھلا دیتی ہیں اور خواہشات کی پیروی حق و صداقت سے روک دیتی ہے۔‘‘

ایک روایت یوں ہے کہ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قریب بستر پر استراحت فرما رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا آخرت کو یاد کرکے روپڑیں اور ان کے آنسو حضور ﷺ کے چہرۂ انور پر گرے تو حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی۔ آپﷺ نے فرمایا عائشہ! کیوں روتی ہو؟ عرض کیا حضور! آخرت کو یاد کرکے روتی ہوں،کیا لوگ قیامت کے دن اپنے گھروالوں کو یاد کردیں گے؟ آپ نے فرمایا بخدا! تین جگہوں میں لوگوں کو اپنے سوا کچھ یاد نہیں ہوگا۔

1:  جب میزان عدل رکھا جائیگا اور اعمال تولے جائیں گے لوگ سب کچھ بھول کر یہ دیکھیں گے کہ ان کی نیکیاں کم ہوتی ہیں یا زیادہ۔

2:   نامۂ اعمال دیئے جانے کے وقت یہ سوچیں گے کہ دائیں ہاتھ میں ملتا ہے یا بائیں ہاتھ میں۔

3:   پل صراط سے گزرتے ہوئے سب کچھ بھول جائیں گے ۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم رسول اﷲ ﷺ کے پروردہ تھے اور آپ کی بارگاہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرتے۔ ایک ایک فرمان نبویﷺ پر وہ دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے اور اس میں کام یاب و کام ران بھی ہوئے اور رسول اﷲ ﷺ نے انہیں فکرِآخرت کی جو تعلیم عطا فرمائی اور اس پر وہ کس قدر عامل ہوئے ذراسیدنا ابودرداء رضی اﷲ عنہ کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔

وہ فرماتے ہیں:’’اے لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو آبادی چھوڑ کر ویران ٹیلوں کی طرف نکل جاتے اور اپنے کو ریاضت میں مشغول کرتے،گر یہ وزاری کرتے اور ضروری سامان کے علاوہ تمام مال و متاع چھوڑ دیتے لیکن دنیا تمہارے اعمال کی مالک بن گئی ہے اور دنیا کی اُمیدوں نے تمہارے دل سے آخرت کی یاد مٹا کر رکھ دی ہے اور تم اس کے لیے جاہلوں کی طرف سر گرداں ہو، تم میں سے بعض لوگ جانواروں سے بھی بدترین ہیں جو اپنی خواہشات میں اندھے بن کر انجام کی فکر نہیں کرتے تم سب دینی بھائی ہو تے ہوئے ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہو۔

تمہارے خبث باطن نے تمہارے راستے جدا کر دیئے ہیں اگر صراط مستقیم پر چلتے تو ضرور باہم محبت کرتے، تم دنیاوی امور میں باہم مشورے کرتے اور تم اس ذات سے محبت رکھتے جو تمہیں محبوب رکھتا ہے۔ تمہارا آخرت کی بھلائی کی طرف ایمان کم زور پڑ چکا ہے۔ اگر تم آخرت کی بھلائی پر یقین رکھتے جیسے دنیاوی اونچ نیچ پر یقین رکھتے ہوتو تم دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے کیوںکہ آخرت تمہارے اعمال کی مالک ہے ۔

اسی طرح وہ نفوسِ قدسیہ جنہوں نے اسلام اور ہادی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنا راہ نما بنایا عبادت و ریاضت، اخلاق و کردار، خوف و خشیت ربانی، جہاد و مجاہدہ، صدق مقال، اکل حلال، صفائے نفس، تطہیر قلب، تزکیہ باطن اور دیگر شعبہ ہائے دین و شریعت میں اپنی مثال آپ ہو ا کرتے، جنہوں نے مرضیاتِ الہٰی کی طلب میں اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے مطیع و فرمان بردار بنایا اور دنیاوی و اخروی بھلائیاں حاصل کیں دنیا کی محبت و انہماک کی بجائے آخرت کی پونجی جمع کرنے میں مساعی جمیلہ کیں جن کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے ذرا ان پاک باز ہستیوں کے بھی تصور آخرت کے متعلق اقوال و ارشادات ملاحظہ کرتے چلیں۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد گرامی ہے کہ:’’تم جس قدر دنیا کے لیے غم گین ہوتے ہو اسی قدر آخرت کا غم کم ہوجاتا ہے، جس قدر آخرت کا غم کھاتے ہو اسی قدر دنیا کا غم مٹ جاتا ہے ۔‘‘

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:’’اگر دنیا مٹ جانے والے سونے اور آخرت باقی رہنے والی ٹھیکری کی ہوتی تب بھی فانی چیز پر باقی رہنے والی چیز کو ترجیح دینا مناسب ہو تا چہ جائے کہ یہ دنیا ٹھیکری ہے اور آخرت سونا ہے مگر ہم نے پھر بھی دنیا کو پسند کر لیا ہے۔‘‘

حضرت ابوسلمان الدرانی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول ہے کہ:’’جب کسی طالب دنیا کو دنیا ملتی ہے تو وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے اور جب کسی طالب کو آخرت کا اجر ملتا ہے تو وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے نہ اس کی تمنا ختم ہوتی ہے اور نہ اُسکی تمنا ختم ہوتی ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ سے دنیا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’ہم نے دنیا کے لیے دین کو پارہ پارہ کردیا مگر نہ دنیا ملی اور نہ دین باقی رہا۔‘‘ کسی دانا نے اس دنیائے فانی کی حقیقت کو یوں آشکار کیا ہے:’’وہ بندہ خوش نصیب ہوتا ہے جس نے اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور دنیا کواچھی آخرت کی اُمید میں صرف کردیا۔‘‘ ایک اور حکیم دانا کہتا ہے:’’یہ دُنیا کسی اور کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ اسے راہِ خدا میں خرچ کر دے تجھے بخشش سے ہم کنار کردے گی۔‘‘،’’تیری دنیا سائے کی طرح ہے۔کچھ دیر تیرے اُوپر سایہ کرتی ہے گی اور ڈھل جائے گی۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت لقمان کی بیٹے کو کی گئی نصیحت بھی فکرآخرت میں اہمیت کی حامل ہے وہ فرماتے ہیں:’’اے بیٹے! دنیا کو آخرت کے لیے بیچ دے۔ دونوں طرف سے نفع اٹھائے گا اور آخرت کو دنیا کے لیے نہ بیچ کہ دونوں طرف سے نقصان میں رہے گا۔‘‘

ثابت ہوا دنیا عارضی اور آخرت ابدی جگہ ہے۔ ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنا ہے تاکہ ہمیشہ کی زندگی آسائش سے ہم کنار ہو۔ اگر عقیدہ فکر آخرت ہمارے ذہنوں میں نقش ہوجائے تو گناہ و معاصی کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں فکر آخرت سے اپنے اعمال سنوارنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Similar Posts