ایک تصویر ہانگ کانگ میں لگی آگ کا عالمی چہرہ کیسے بنی؟

خزاں کی ایک پرسکون دوپہر، جو عام طور پر نرم دھوپ اور ٹھنڈی ہوا کی ایک ہلکی سی خوشبو لیے ہوتی ہے، اس بار ہانگ کانگ کے ایک ہاؤسنگ اسٹیٹ پر موت کا سایہ لیے اتری۔ یہ وہ لمحہ تھا جب زندگی اپنی رفتار سے چل رہی تھی، لوگ اپنے روزمرہ معمول میں مصروف تھے۔

اسی پرسکون لمحے میں 71 سالہ وونگ، جو اپنی ریٹائرڈ زندگی معمول کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں گزارتے تھے، اپنی پوتی کو اسکول سے لانے کے لیے گھر سے نکلے۔ یہ کام، وہ اور ان کی اہلیہ باری باری کیا کرتے تھے اور اس دن باری وونگ کی تھی۔

وونگ معمول کے مطابق گھر سے نکلے تھے، لیکن گھر سے چند قدم ہی دور گئے تھے کہ ہوا میں عجیب بو پھیلی، وہ پلٹے اور پھر آنکھوں نے دھوئیں کے لہرائے ہوئے سیاہ بادل دیکھے۔ کچھ ہی دیر میں آنکھوں نے دیکھا کہ جس ہاؤسنگ اسٹیٹ میں وہ رہتے تھے، اسی کے ایک ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔

ان کے سامنے وہ منظر تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ان کے اپنے ٹاور کی درمیانی منزلوں سے آگ کے شعلے باہر نکل کے آسمان کو چھو رہے تھے ۔اسی ٹاور میں ان کی شریکِ زندگی، ان کی ہمراز، ان کی زندگی بھر کی ساتھی موجود تھیں۔

وہ بے اختیار چیخے ”میری بیوی اندر ہے!“

یہ فریاد بے بسی کی تصویر بن گئی اور پوری دنیا تک ہانگ کانگ میں لگی آگ کا عالمی چہرہ بن گئی۔

رائٹرز کے فوٹوگرافر ٹائرون سیو نے انہیں سڑک پر بے اختیار چیختے، اور ہاتھ بلند کیے دیکھا۔ ایک ایسا لمحہ جو درد کی ہر زبان سے بلند تھا، ایک تصویر جس میں صدمہ، بے بسی اور بے پناہ محبت ایک ساتھ اندوہناک غم لئےکھڑے تھے۔

سیو کا کہنا تھا کہ تصویر خود سب کچھ بیان کر رہی ہے، دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھا شخص وونگ کے درد اور بے بسی کو محسوس کر سکتا ہے۔

جس بے بسی سے وونگ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے، جس درد سے انہوں نے چیخ کر کہا کہ ان کی بیوی اندر ہے، وہ بے بسی اور غم کا ایسا منظر تھا جسے کسی زبان میں مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندوہناک منظر یہ چیخ دنیا بھر میں پھیل گئی اور بےبسی کی تصویر بن گئی۔

.

.

ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔
آگ بجھ چکی ہے، عمارتوں کی راکھ ٹھنڈی ہو چکی ہے لیکن وونگ کی زندگی کی آگ اب بھی دہک رہی ہے۔ ان کی اہلیہ اب تک لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ 156 جانیں جا چکی ہیں، درجنوں اب بھی لاپتہ ہیں۔ ہر فرد کی کہانی الگ ہے، مگر ہر کہانی ایک ہی چیخ پر ختم ہوتی ہے۔

وونگ کے بیٹے نے بتایا کہ والد نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں عمارتوں کی مرمت کا کام کیا تھا۔ اسی لیے انہیں اس عمارت میں جاری غیرمعیاری مرمت پر خدشات تھے۔ انہوں نے کھڑکیوں کے باہر لگے نقصان دہ میٹریل کو ہٹا کر آگ روکنے والی فلم لگائی، یہاں تک کہ گرین میش کو روز پانی سے نم رکھتے تھے لیکن تقدیر کی اس بے بسی کے آگے ان کی تمام کوششیں بے وزن تھیں۔

آگ بھڑکنے کے بعد چند لمحوں کے لیے وونگ کی اہلیہ نے انہیں فون کیا تھا، ایک مختصر سی گفتگو، جو اب ان کی زندگی کی سب سے تلخ یاد ہے۔ اس کے بعد خاموشی۔

اسی دن شام کے وقت وونگ کبھی زمین پر گر پڑتے، کبھی جلتے ہوئے ٹاور کو تکتے رہتے۔ رات ہوئی تو پولیس نے انہیں بیٹھنے کے لیے ایک پلاسٹک کی کرسی دی۔ وہ ٹاور کی جانب دیکھ کر ہولے سے کہتے، “میں تمہیں ڈھونڈنے آ رہا ہوں…”

ان کے اس جملے میں شوہر کی وہ محبت بول رہی تھی جو آگ کی لپٹوں سے بھی زیادہ شدید ہے۔



AAJ News Whatsapp


یہ ایک حادثہ نہیں، یہ ایک خاندان کا بکھر جانا ہے، ایک شہر کی اجتماعی سوگوار شام ہے، اور ایک ایسے شخص کی بے بسی ہے جو پوری زندگی دوسروں کی عمارتوں کو محفوظ بناتا رہا… مگر اپنی ہی زندگی کی عمارت کو ٹوٹنے سے نہ روک سکا۔

آگ کی تباہی کے بعد شہر میں صرف دھواں نہیں پھیلا؛ سوال بھی پھیلے۔کیوں ایک رہائشی کمپلیکس میں استعمال ہونے والا مواد ایک بڑے قتلِ عام کا سبب بنا؟
کیوں غیرمعیاری میٹریل، سستی پلاسٹک میش اور جلد سلگ اٹھنے والا انسولیشن ایسے ٹاورز میں لگایا گیا جن میں ہزاروں لوگ رہتے تھے؟

Similar Posts