اسی بنیاد پر 1973میں پاکستان کا اسلامی اور جمہوری آئین بنا۔ ملک کی تمام اکائیوں کے درمیان سماجی و عمرانی معاہدے کی توثیق تمام سیاسی جماعتوں اور تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر کی۔ جس کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے کہ “اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم ہے، اس لیے اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ وبرتر کو حاصل ہے”، اس اقتدار اعلیٰ کے تحت پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا اختیار ایک مقدس امانت کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔
سورہ النساء آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ “بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو پہنچادیا کرو”۔ آئین کے دیباچے میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے کہ حکمرانی کے اختیار کی یہ مقدس امانت عوام اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے بروئے کار لائیں گے، یعنی یہ ذمے داری عوام کو سونپ دی گئی ہے کہ وہ اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں وہ ایسے نمایندوں کا انتخاب تو نہیں کررہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی امانت (ووٹ) کے اہل نہ ہوں یا ماضی میں خیانت کے مرتکب ہو چکے ہوں۔
آئین کے آرٹیکل 227 کے مطابق “اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا” لیکن یہ قومی المیہ ہے کہ مختلف ادوار میں کئی قوانین ایسے بنائے گئے جو مختلف کیسوں کے عدالتی فیصلوں میں پارلیمنٹ کو ایسے قوانین بنانے کی سفارش کی جاتی ہے جو شرعی معیار پر پورا نہیں اترتے۔
مارچ 2022 میں ایک 16 سالہ لڑکی کے کیس کے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا 18 سال سے کم عمر کی شادی پر عدالتی فیصلہ اگر اس کیس تک محدود ہوتا تو اضطراب کم ہوتا مگر عدالت نے مسلم فیملی آرڈیننس میں وضاحت نہ ہونے کا معاملہ کابینہ ڈویژن اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کر دی۔ یوں اس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔اس فیصلے سے دور اندیش علماء مستقبل میں پیش آنے والے جس خطرے کو بھانپ چکے تھے۔
وہ خطرہ آج “اسلام آبادکیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل” کی شکل میں حقیقت بن کر سامنے آیا۔ یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران نے پیش کیا، قومی اسمبلی میں یہ بل شرمیلا فاورقی صاحبہ اور سینیٹ میں شیری رحمٰن صاحبہ نے پیش کیا تھا۔ دونوں ایوانوں سے یہ بل منظور اور صدرمملکت آصف علی زرداری کے دستخط کرنے کے بعد اب یہ قانون بن کر نافذ ہے جس کے مطابق 18 سال کی عمر کو بلوغت کی قانونی حد اور شادی کی کم از کم عمر 18 سال متعین کرتاہے۔ اس قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کرتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔ چاہے لڑکا اور لڑکی دونوں شرعی طور پر بالغ ہی کیوں نہ ہوں، اس قانون کے مطابق دونوں کوقید کی سزا ہوگی۔
اس قانون کے مطابق 18 سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قید بامشقت ہوگی، اسی طرح 18 سال کی عمر سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا، کم عمر دلہن یا دلہے کو شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، کم عمر بچوں کے والدین، شادی کے لیے معاونت، سہولت کاری اسے لانے اور لے جانے والوں کو 7 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا، 18 سال سے کم عمر دلہا، دلہن کا نکاح پڑھانے کی ممانعت ہوگی، نکاح خواں یقینی بنائے گا کہ دونوں فریقین کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے جب کہ خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ شریعت مطہرہ میں شادی کی شرط صرف بلوغت ہے، دونوں کی بلوغت اور ذہنی صلاحیت شادی کے لیے کافی ہے۔ فقہ کے چاروں مکاتب کا اجماع ہے کہ رخصتی اور حق زوجیت کے لیے شرط بلوغت ہے لیکن نکاح کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے۔ نکاح کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ موجودہ قانون کو کیا نام دیں؟
شریعت مطہرہ کے مطابق اولاد کی پرورش والدین کی ذمے داری ہے، والدین اپنے تجربے اور محبت کی بنیاد پر کم سن بچوں کے رشتوں کے بارے میں بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بلوغت کے ساتھ جب جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق کا بن جاتا ہے، سن بلوغت پر پہنچنے والے لڑکے اور لڑکی پر اس قسم کے غیر فطری قانون لاگو کرنا ان کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ شادی میں تاخیر معاشرتی برائیوں کو جنم دیتی ہے اور فطری ضرورت کو جبری طور پر روکنے سے نفسیاتی و جنسی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس لیے یہ غیر فطری‘ انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم یہ قانون مذہبی حلقوں کے لیے اضطراب کا باعث ہے
گزشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پریس کانفرنس میں اس قانون کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی کہ 18 سال سے کم عمر نوجوان کو نابالغ کہنا کس شریعت میں ہے؟ کس مکتب فکر نے یہ بات کی ہے؟ پھر قانون کو یہاں تک سخت کرنا کہ 18سال سے پہلے شادی ہوئی یا نکاح ہوا تو اسے جنسی زیادتی کہا جائے گا اور اسے زنا بالجبر سے تعبیر کیا جائے گا اور اس کی سزا دی جائے گی۔
افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کا قانون پاس کیا گیا اس میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے ووٹ دیا تھا۔ آج بھی جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ اس پرقدغنیں لگائی جارہی ہیں اب عجیب بات یہ ہے کہ 18 سال سے پہلے نکاح کو جنسی زیادتی کہا جائے گا،اور اگر اس سے اولاد پیدا ہوگئی تو وہ اولاد جائز کہلائے گی۔
اس کے والد کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے بچے کو نان و نفقہ دے۔ میرے خیال میں ان لوگوں کی مت ماری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں آخر ایسے قوانین کیسے بن جاتے ہیں؟ اس کا جواب دیا جاچکا کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق ضروری تھا افسوس کہ حلف تو آئین پاکستان پر لیا ہے اور آئین پاکستان میں قوانین و ترامیم اقوام متحدہ یعنی مغرب کے چارٹر کے مطابق ہونگے؟
مگر جب قانون ساز اداروں میں مغرب پرست ممبران کی اکثریت اور ملک عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہوگا تو پھر ایسے ہی ایجنڈے تھما دیے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر غیر ملکی این جی اوز بکاؤمال کے خریدار بن کر بھی سامنے آتے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور عوام نے محسوس کیا کہ وہ بے بس ہیں تو پھر عوام کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے سامنے مضبوط بند باندھنا ہوگا اس میں مزید تاخیر ملک کے لیے نقصان دہ ہو گی۔