خودساختہ مقبولیت

حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اس کو مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف اپنی پارٹی کی اور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی حکومت کی کارکردگی قرار دیتے ہیں جب کہ موجودہ حکومت میں بے روزگاری اور مہنگائی جس انتہا پر پہنچ چکی ہے، اس کا انکشاف عالمی ادارے مسلسل کر رہے ہیں مگر (ن) لیگ کی قیادت اس پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔

کوئی عالمی ادارہ اگر حکومت کے کسی اچھے اقدام کی جو بہت کم ہی ہوتا ہے، اس میں حکومت کا کوئی کردار ہو تو اس کا کریڈٹ لینے کے لیے حکمران شادیانے بجانے لگتے ہیں اور اپنے خلاف آنے والی خبروں کو حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں یا تردید کر کے جان چھڑا لیتے ہیں۔

 آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹوں میں بھی حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار نہیں ہو رہا جس کو اپوزیشن بہتر طور استعمال نہیں کر رہی کیونکہ موجودہ حکومت اس کو اپوزیشن کا منفی پروپیگنڈا قرار دے دیتی ہے اور اپوزیشن حکومت کے خلاف عالمی اداروں کی رپورٹوں کو اس لیے نہیں استعمال کرتی کہ اسے حقائق سے زیادہ اپنے بانی کی رہائی اور بانی سے ملاقاتیں نہ ہونے کی فکر بہت زیادہ ہے جسے وہ کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو پونے دو سال ہوگئے ہیں، جس میں عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ بجلی وگیس مہنگی پہ مہنگی کی جا رہی ہے۔ ملک میں بے روزگاری سات فی صد سے بڑھ چکی ہے اور ملک میں ساٹھ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ضمنی الیکشن کے بعد آنے والی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتے ہوتے اب مہنگائی سالانہ بنیاد پر 4.32 فی صد پر آ گئی ہے مگر وفاقی وزیر خزانہ جو غیر سیاسی شخصیت ہیں، معاشی بہتری کے دعوے کرتے رہتے ہیں مگر مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی نہیں آ رہی جس سے جرائم ضرور بڑھ رہے ہیں مگر وفاقی حکومت کو کوئی فکر نہیں کیونکہ مہنگائی اب صوبائی مسئلہ ہے اور وفاقی حکومت صرف مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے اور حکمران اپنا غیر ملکی دوروں کا نیا ریکارڈ بنانے میں زیادہ مصروف ہیں ۔

آیندہ الیکشن مسلم لیگ (ن) نے لڑنا ہے جس کے صدر میاں نواز شریف اب اکثر خاموش ہی رہتے ہیں اور پنجاب میں اب ساری ذمے داری ان کی صاحبزادی وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہے جو مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر ضرور ہیں ۔ مسلم لیگ کی قیادت سرکاری تقاریب میں سرکاری خطاب کر کے اپنی حکومت کی کارکردگی ہی بیان کرتی ہیں جب الیکشن ہوں گے تو پھر وہ اپنی کارکردگی کا سارا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو دیں گے جو اب پنجاب تک ہی محدود ہے اور خوش ہے کہ اس کے امیدوار نے پنجاب سے باہر ہری پور کا ضمنی الیکشن جیت لیا ہے۔

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) سرداروں اور جاگیرداروں تک محدود ہے عوام بھی (ن) لیگ کو نہیں انھیں ہی جانتے ہیں جو وقت ضرورت پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی کے بجائے سیاسی حالات کے دھارے میں چلتے ہیں اور ان کے گھروں پر پرچم بدل جاتے ہیں۔ یہی بلوچستان کی سیاست ہے اور پیپلز پارٹی کے برعکس وہاں کے حکمران اور رہنما اپنی پارٹی بدلنے میں دیر نہیں کرتے اور اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔

کے پی کو پنجاب کے بعد کبھی مسلم لیگ (ن) کا کہا جاتا تھا جو ہزارہ ڈویژن پر محیط تھا مگر وہاں باہمی اختلافات کے باعث (ن) لیگی رہنما پارٹی چھوڑ گئے یا غیر متعلق ہو گئے جس کے نتیجے میں فروری 2024 کے الیکشن میں خود میاں نواز شریف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد بھی (ن) لیگ پر توجہ نہیں دی جا رہی نہ نواز شریف ایبٹ آباد ہارنے کے بعد گئے مگر پھر بھی ہری پور سے (ن) لیگی امیدوار جیت گیا اور ایوب خاندان کی آبائی سیٹ چھن گئی جس میں (ن) لیگ کا کوئی کمال نہیں ہے۔

سندھ سے مسلم لیگ کا سیاسی طور پر کمزور ہونے کا عمل وزیر اعظم نواز شریف کی اپنی حکومت میں ہی ہو گیا تھا اور (ن) لیگی ارکان اسمبلی (ن) لیگ کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے۔ اگر مسلم لیگ ن کی قیادت توجہ دیتی تو اس کی اپنی پارٹی کے وزرائے اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی پارٹی نہ چھوڑتے جب کہ پی پی کا کوئی عام رہنما بھی پارٹی نہیں چھوڑتا۔ کراچی وغیرہ میں (ن) لیگ کے جو چند رہنما رہ گئے ہیں انھیں شاید قیادت بھی بھول چکی ہے کہ کس نے عدلیہ سے اپنی سینیٹ کی نشست گنوائی تھی۔ مسلم لیگ ن کی توجہ اب صرف پنجاب پر ہے جہاں (ن) لیگ کی حکومت ضرور ہے مگر (ن) لیگی رہنماؤں کی اپنی پارٹی میں اہمیت موجود ہے جس طرح سندھ حکومت میں پی پی رہنماؤں کو حاصل ہے جس کی وجہ شریف فیملی کا انداز حکمرانی رہا ہے مگر اب پارٹی رہنماؤں کے بجائے بیورو کریسی کے سہارے حکومت کی جا رہی ہے اور پنجاب کی حکمرانی میں بھی سابقہ طریقہ حکومت چل رہا ہے۔

پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بے شک دوسرے صوبوں کی حکومتوں سے زیادہ متحرک ہو کر کارکردگی دکھا رہی ہے اور پی ٹی آئی کے بقول اس پر وفاق بھی زیادہ مہربان ہے مگر پھر بھی پنجاب کے عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے بے روزگاری اور بھاری جرمانے مل رہے ہیں۔ تجاوزات ختم کرانے کا نیا ادارہ لاکھوں افراد کو بے روزگار کر چکا ہے۔

سی سی ٹی وی کیمرے بھاری جرمانوں کا ریکارڈ بنا کر حکومتی خزانہ بھر رہے ہیں۔ حکومتی اقدامات سے عوام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے مگر وہ مجبور ہیں اور جس کا ردعمل وہ آیندہ الیکشن میں (ن) لیگ کو دے سکتے ہیں۔ عوام کی عدم دلچسپی کا ثبوت لاہورکا ضمنی الیکشن ہے جس میں سب سے کم صرف 18 فی صد ووٹ پڑا۔ عوام کی عدم دلچسپی حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ شدید بے روزگاری میں سڑکیں اور بازاروں سے تجاوزات کا خاتمہ عوامی مسائل کا حل نہیں بے روزگاری بڑھانا ہے۔ بے روزگار کیے جانے والوں کو متبادل جگہیں دینا بھی حکومتی ذمے داری ہے صرف ترقیاتی کاموں سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔

Similar Posts