یہ اعلانات محض فیصلہ نہیں بلکہ دو قدیم تہذیبوں کے دو دریا دریائے سندھ اور دریائے نیل کی وہ باہمی یگانگت ہے، وہ آواز ہے کہ اب ہم دونوں کی ایک ہی سمت ہوگی، لہٰذا نیل اور سندھ اب یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ مستقبل کی طرف ایک ساتھ بہیں گے۔ اسلام آباد اور قاہرہ کا یہ بڑھتا ہوا اشتراک دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ مشرق کے سفارتی نقشے میں اب کشمکشوں کی جگہ امکانات جنم لیں گے۔
نیل کی موجیں اگر احرام کا سایہ سنبھالتی ہیں تو سندھ کی لہریں ہزاروں سال قبل موہنجودڑو سے ہونے والی تجارت کا راز جانتی ہیں اور یہی دونوں لہریں مستقبل کی سمت بہنے پر آمادہ ہیں۔ دونوں ملکوں کی سطح پر کاروباری اور تجارتی تعاون کو وسعت دینے کی بات کی گئی۔ ویزا کی سہولیات دی جائیں گی، دونوں ممالک نے باہمی تجارتی اور کاروباری تعلقات کو ادارہ جاتی بنیاد پر منظم کرنے کے لیے مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں دونوں ممالک 2026 کی پہلی سہ ماہی میں اجلاس منعقد کریں گے اور ایک مشترکہ وزارتی کمیشن کی بحالی بھی طے پائی ہے۔
تعلیمی اور ثقافتی تعاون بڑھایا جائے گا، صحت کے شعبے میں بھی تعاون کیا جائے گا، اس سلسلے میں پاکستان میں ’’ہیپاٹائٹس سی‘‘ کے خاتمے کے قومی پروگرام میں مصر کی معاونت پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر مصر کے وزیر خارجہ نے پاکستانی طلبا کے لیے الازہر یونیورسٹی کے اسکالر شپس پروگرام کو دگنا کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس طرح نوجوانوں کو نئے مواقع ملیں گے اور دونوں معاشروں میں فکری تبادلے کو فروغ ملے گا۔
تجارتی تعاون کو وسعت دینے کے لیے پاکستان جلد مصر کے ساتھ 250 اہم کاروباری اداروں کی فہرست شیئر کرے گا۔ جہاں پہلے مرحلے میں ویزا سہولت دی جائے گی، دوسرے مرحلے میں مزید 250 ادارے شامل کرکے 500 پاکستانی بزنس ہاؤسزکی ویزا سہولت کے لیے نشان دہی کی جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ مصر ایک ملک نہیں، ایک تہذیب ہے جو ہزاروں طلسمات کے راز جانتا ہے۔ قاہرہ کا ہر بازار، ہر چوک، ہرگلی، ہر راستہ ان تاجروں کو جانتا ہے جو دریائے سندھ کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے بحیرہ عرب کے راستے مصر کے ساحلوں پر اترا کرتے تھے۔ پاکستان کے تاجر قاہرہ کے ان بازاروں سے کتابوں اور کہانیوں کے ذریعے واقفیت رکھتے ہیں اور جلد ہی ان کو موقع ملنے والا ہے کہ ان بازاروں کی سیر کر رہے ہوں گے۔ وہاں پر اپنے لیے تجارتی مواقع ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ حکومت پاکستان جلد از جلد ان کے لیے بزنس وژن کا اہتمام کرے،کیونکہ پاکستانی تاجروں نے مصر کے بازاروں کا خواب بچپن سے سجا رکھا ہے۔
فرض کریں یوں سمجھ لیں کہ ایک تاجر کو ویزا ملتا ہے اور وہ قاہرہ کے بازار میں گھوم رہا ہے۔ کچھ اجنبیت کچھ اپنائیت محسوس کر رہا ہے۔ بازار کے ’’شوکیسوں‘‘ میں پاکستانی مصنوعات کپڑے، چمڑے کی مصنوعات اور دیگر اشیا سے بھرے جانے کا خواب لیے گھوم رہا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ قاہرہ کے بازاروں نے اس کے قدموں میں نئے تجارتی راستے بچھا دیے ہیں۔ وہ یہ خواب دیکھ رہا تھا محسوس کر رہا تھا اتنے میں مغرب کا وقت ہو گیا۔ قریب ہی مسجد سے اذان کی آواز آئی، مصری تاجر اپنی دکانوں سے اٹھے اور مسجد کی جانب جانے لگے۔ اس کے قدم بھی مسجد کی طرف اٹھنے لگے۔
اس نے سر پر ٹوپی رکھی اور مسجد کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگا۔ سارے دکاندار جو پہلے اسے بیگانگی سے دیکھ رہے تھے، اب اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ قدم بڑھتے چلے گئے دل ملتے چلے گئے۔ نماز باجماعت میں کندھے سے کندھا ملا، دل جڑتے چلے گئے۔ سلام پھیرا مصافحہ ہوا معانقہ ہوا۔ تعارف ہوا مسجد سے باہر آئے اور بہت سے تاجر ساتھ ہو لیے۔ قہوے کا دور چلا، تجارت کی بات ہوئی اور پھر آرڈرز ملتے چلے گئے۔ کسی زمانے میں اسلامی ممالک آپس میں خوب تجارت میں مشغول تھے اور مسلمان خوشحال تھے۔