اگر ایک اکثریتی جماعت کے ارکان اسمبلی بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر کوئی قانون سازی کرتے ہیں تو اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے قائدین آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں حالانکہ انھیں اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ جو قانون بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ مسئلہ پوائنٹ اسکورنگ کا ہوتا ہے‘ اس لیے وہ مخالفت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس صورت حال کو وہ طبقہ سپورٹ کرتا ہے جو بظاہر سیاسی نہیں ہوتا لیکن وہ پس پردہ رہ کر سیاست کو مینور کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیے جرمانے بڑھانے کا اعلان کیا تو اس پر بھی یار لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ موٹر سائیکل سوار کہتے ہیں کہ ہیلمٹ نہ پہننے پر دو ہزار روپے جرمانہ زیادتی ہے کیونکہ موٹر سائیکل غریب لوگوں کی سواری ہے اور ان کے مالی وسائل پہلے ہی کم ہیں‘ اس بیانیے کو لے کر یوٹیوبروں کی فوج ظفر موج بھی مائیک پکڑ کر سڑکوں پر آ گئی اور ہر آتے جاتے سے پوچھنے لگے کہ آپ بتائیں کہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط۔ اب جس کے جو منہ میں آتا ہے وہ بات کر دیتا ہے۔
ادھر مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی پارٹیوں کے ارکان بھی متحرک ہو گئے کہ چلو اور کچھ نہیں تو اس بہانے ہی حکومت کی مخالفت کی مہم کو آگے بڑھایا جائے۔ مجھے نہ یوٹیوبروں پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے مخالفین کی مہم جوئی پر اعتراف ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ کیا ہیلمٹ پہننا موٹر سائیکل سوار کی حفاظت کے لیے ضروری نہیں ہے؟ کیا ہمیں نہیں پتہ کہ شہروں اور قصبوں میں آئے روز موٹر سائیکل سوار مختلف حادثات میں جان سے جا رہے ہیں؟ بعض اوقات موٹر سائیکل سوار کی غلطی سے بڑا حادثہ ہو جاتا ہے اور وہ کئی جانوں کے ضیاع کا سبب بن جاتا ہے۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر کے اسپتالوں کا ڈیٹا چیک کر لیں‘ وہاں ایمرجنسی میں سب سے زیادہ زخمی یا نیم مرگ افراد کا تعلق موٹر سائیکل سواروں سے ہو گا۔یہ ایک مثال ہے۔ اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔
منگل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا‘ اس اجلاس میں اقلیتی حقوق کمیشن کا بل منظور ہوا۔ اس بل میں بلوغت اور شادی کے حوالے سے 18سال کی عمر مقرر کرنے کا قانون بنانے کی تجویز تھی جسے اکثریت سے منظور کر لیا گیا لیکن اس پر بھی بہت واویلا مچایا گیا۔ مذہبی حوالے سے بحث کا آغاز کیا گیا‘ میں اس بل کے مندرجات پر بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ اب پاس ہو چکا ہے لیکن پارلیمنٹ کی براہ راست نشر کی گئی کارروائی میں اس بل پر مولانا فضل الرحمان نے کھل کر تنقید کی اور اپنا موقف بڑے مدلل انداز میں بیان کیا۔ حکومتی بنچوں پر بھی بڑے پڑھے لکھے اور معزز پارلیمنٹیرینز اور وزیر وضاحت کرتے رہے لیکن میں نے محسوس کیا کہ پارلیمان میں سرکاری بنچوں پر ایسے ارکان پارلیمنٹ کی کمی ہے جو دینی اور شرعی معاملات کا گہرا علم رکھتے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وفاقی وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے جوابات مقلدین کی طرح تھے۔ ان میں دینی علمی گہرائی اور وسعت کی کمی نظر آئی۔ میرا خیال ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی یہ ایک خامی ہے‘ ضروری نہیں کہ سارے ارکان پارلیمنٹ اسکالر ہوں لیکن ہر سیاسی جماعت کے پاس ایسے ارکان پارلیمنٹ ضرور ہونے چاہئیں جو روایتی علماء بے شک نہ ہوں لیکن انھیں تقابل ادیان کا بھرپور علم ہونا چاہیے‘ قومی اسمبلی میں اگر ایسے ارکان لوگوں کا منتخب ہونا مشکل ہے تو کم از کم سینیٹ میں ایسے اسکالرز کو ٹکٹ دے کر سینیٹر منتخب کرایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو رجعت پسندی اور دقیانوسیت سے نکال کر جدیدیت کی راہ پر ڈالنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے، پاکستان کے نصاب تعلیم میں بھی بے شمار خامیاں ہیں‘ ان خامیوں کو میں اور آپ بتا تو سکتے ہیں لیکن انھیں دور کرنے کے لیے ہمارے پاس قوت نافذہ نہیں ہے۔ یہ کام حکومتوں نے کرنا ہے، حکومت کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کے لیے قوانین بنانے کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے پارلیمان اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذا ارکان پارلیمنٹ کا عصری علوم سے لیس ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں تھیالوجی کا بھی علم ہونا چاہیے کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود ایک بہترین تھیالوجسٹ ہی کسی مذہبی پرسنیلٹی کے اٹھائے گئے سوالات کا شافی جواب دے سکتا ہے۔
پاکستان کی ایسی سیاسی قیادت جو ماڈریٹ سیاسی نظریات کی حامل ہے‘ انھیں اپنی سیاسی ترجیحات اور ضروریات کو طے کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجنے کی کوشش کرنی چاہیے جو فلسفہ قانون اور تھیالوجی سے بھی آگاہ ہوں، پارلیمنٹ کا رکن بننے کا مقصد سماجی رعب داب اور ٹہور ٹپہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا مقصد ترقیاتی فنڈ کا حصول ہوتا ہے۔ ایک پارلیمنٹیرینز کا بہترین کام اور اس کا مقصد آئین اور قانون میں موجود خامیوں اور کمیوں کو پہچاننا، انھیں دور کرنے کے لیے متبادل خیالات دینا ہوتا ہے۔
پاکستان میں جمہوری کلچر کی کمزوری کی وجہ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ سیاسی قیادت اور ان کے حامی طبقے ہیں۔ پاکستان میں آج جو خرابیاں نظر آ رہی ہیں‘ اس میں اسٹیبلشمنٹ‘ عدلیہ اور بیوروکریسی کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے لیکن اگر خود احتسابی کے عمل سے گزرا جائے تو پاکستان کی سیاسی قیادت کا چہرہ بھی پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بزنس کلاس بھی پس پردہ رہ کر ایک اہم پلیئر کے طور پر کھیلتی رہی ہے اور اب بھی کھیل رہی ہے۔
صرف سیاست اور بزنس اکٹھے ہو کر چلتے اور اپنے مفادات کو روشن خیال کلچر کے ساتھ ہم آہنگ کرتے تو آج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ‘ عدلیہ اور بیوروکریسی بھی انھی اصولوں پر چل رہی ہوتی۔ ایوب خان کے مارشل لاء کو کن لوگوں نے سہارا دیا؟ یحییٰ خان رجیم کن طبقوں کے کاندھوں پر کھڑی رہی؟ ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا تو اسے کن سیاسی گروپوں نے سہارا دیا؟ یہ تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ کئی کردار تو ابھی زندہ سلامت ہیں۔
بات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ عوام ہمیشہ حکمرانوں کی پیروی کرتے ہیں اور حکمران صرف اپنے مفادات کی پیروی کرتے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اپنے مفادات کی پیروی نہ کریں‘ میری تو بس چھوٹی سی درخواست ہے کہ ان مفادات کو جدیدیت اور روشن خیالی کے کلچر کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں کیونکہ اب انتہا پسندی اور عدم برداشت کے نظریات زیادہ دیر تک ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کر پائیں گے۔