تہران میں ایرانی صدر سے ملاقات کے دوران انھوں نے ایرانی انتظامیہ کو امریکا کا ایک پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے جنرل مشرف کو بہت عزت دی لیکن کہا کہ اگر آپ مزید گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سپریم لیڈر جناب خامنہ ای کے پاس لے چلتے ہیں۔آپ نے جو کچھ کہنا ہے وہاں چل کر کہیں۔ جنرل مشرف کو سپریم لیڈر سے ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔ اس ملاقات کے بعد جب جنرل مشرف گاڑی میں بیٹھے تو زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ سفیرِ محترم نے صدر مشرف کودرخواست کی کہ ان حالات میں پاکستان کو کانفرنس کی میزبانی نہیں کرنی چاہیے۔مشرف صورتحال کو سمجھ گئے۔یوں یہ مجوزہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی۔
ترکی میں تعینات ہمارے سفیرِ محترم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد جنرل مشرف جب ترکی آئے تو اس سے پہلے میں چھٹی لے کر دھران سعودی عرب میں اپنی بہن کے ہاں مقیم تھا۔ مجھے اسلام آباد فارن آفس سے پیغام ملا کہ فوراً انقرہ پہنچو۔نئی حکومت کے آنے کے بعد ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ ہو چکا تھا۔مجھے بتایا گیا کہ چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف انقرہ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔مجھے تعجب ہوا کہ عجلت میں ترکی کا دورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ملک میں ہنگامی حالت نافذ تھی اور نئے سربراہِ مملکت کا ملک کو اس حال میں چھوڑ کر انقرہ کا دورہ بظاہر سمجھ سے باہر تھا۔
اسلام آباد سے تو اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہ ملی البتہ میں نے خود ہی اندازہ لگایا کہ جنرل صاحب غالباً انقرہ کو اپنا وطنِ ثانی سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں انھوں نے اپنے لڑکپن کے کوئی سات سال گزارے تھے۔ ان کے والدِ محترم سفارت خانۂ پاکستان انقرہ میں بطور اکاؤنٹنٹ تعینات رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ صدر مشرف کچھ کچھ ترکی زبان بھی جانتے تھے۔اس کے ساتھ پاکستان اور ترکی کے درمیان سب سے گہرا ناطہ دونوں ممالک کی افواج کا باہمی تعاون و اشتراک تھا۔شاید جنرل مشرف اپنے ترک دوستوں اور حلیفوں سے ملنے آ رہے تھے ۔ ترکی میں اس وقت بلند ایجوت جیسا سوشلسٹ نظریات کا حامل وزیرِ اعظم تھا جس نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلی تھیں لیکن اپنے جمہوری نظریات پر کوئی سودے بازی نہیں کی تھی۔ 1960سے1995تک35برس میں ترک فوج چار مرتبہ ملک کے جمہوری نظام میں مداخلت کر کے اسے تہہ و بالا کر چکی تھی۔آخری بار1993میں مداخلت ہوئی۔جنرل مشرف کے دورہ کے وقت ترکی کے صدر جناب سلیمان دیمرل تھے اور وزیرِ اعظم جناب بلند ایجوت۔
سفیرِِ محترم لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف ، جناب سلیمان دیمرل سے ملاقات کے لیے قصرِ صدارت گئے تو دیمرل صاحب نے ان کا استقبال بہت خندہ پیشانی سے کیا ۔ اس ملاقات میں جنرل مشرف کے ساتھ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد اور میں تھے۔دیمرل انگریزی بہت اچھی اور بہت روانی سے بولتے تھے، اس لیے مترجم کی چنداں ضرورت نہیں تھی البتہ ملاقات کے minutesلینے کے لیے ایک فرد موجود تھا۔صدر دیمرل نے بہت شائستہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مجھے عملی سیاست میں50برس سے اوپر ہو گئے ہیں۔اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک ترکی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ بار بار فوجی ٹیک اوور تھا۔ہر دفعہ حالات پہلے کی نسبت بگڑے اور خراب ہوئے۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ڈکٹیٹرشپ کسی ملک کی تقدیر سنوار نہیں سکتی۔مجھے پاکستان سے محبت ہے اور آپ کو میں اپنا چھوٹا بھائی گردانتا ہوں۔اس رشتے سے میرا مشورہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اقتدار سول حکومت کے حوالے کر کے بیرکوں میں واپس چلے جاؤ۔ ملاقات ختم ہونے پر جب روانہ ہوئے تو جنرل مشرف نے کہا کہ یہ صدر دیمرل کچھ زیادہ ہی نہیں کہہ گئے۔
سفیرِ محترم اپنی یادداشتوں میں مزید لکھتے ہیں کہ صدر دیمرل سے ملاقات کے بعد جنرل مشرف وزیرِ اعظم بلند ایجوت سے ملنے پہنچے۔بلند ایجوت تین مرتبہ ترکی کے وزیرِ اعظم رہے لیکن ایک مرتبہ بھی وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام نہ کیا۔انقرہ میں ان کا تین کمروں پر مشتمل ذاتی اپارٹمنٹ تھا،وہ اسی میں رہے اور 20برس پرانی Fiatکار خود چلاتے تھے۔
وہاں جاتے ہوئے جنرل مشرف سفیرِ محترم کو پاکستان اور ترکی کی افواج کے درمیان بہت سی مشترک اقدار بتا رہے تھے ۔جناب بلند ایجوت نے مشرف کو چھوٹتے ہی آڑے ہاتھوں لیا اور ان تمام نقصانات کو گنوایا جو سیاسی عمل میںفوج کی مداخلت سے ترکی میں پیدا ہوئے اور بقول ان کے دنیا کے ہر اس ملک میں پیدا ہو سکتے ہیں جہاں بے جا مداخلت ہو۔بلند ایجوت صاحب نے تو ایک مرحلے پر ازراہ تفنن کہا کہ جنرل ہمارے دونوں ملکوں میں بہت سی اقدار مشترک ہیں اور اب تو ہم اس اسکور میں برابر ہو گئے ہیں کہ دونوں جگہ چار بار سیاسی عمل میں رخنہ ڈالا گیا۔