امریکا اور تاجکستان پر حملے:افغان طالبان ذمے دار؟

مقتدر و مفسد مُلّاافغان طالبان کے زیر تسلّط افغانستان کے ہمسایہ میں کوئی ملک ایسا نہیں رہ گیا جوطالبان کے شر سے محفوظ ہو۔افغان طالبان اور افغانوں کے تباہ کن شرارے اب امریکا،وسط ایشیا اور مغرب تک بھی پہنچ گئے ہیں۔یہ افغان طالبان کے مُلّا عمر ہی تھے جن کے دَور میں امریکا پر (معروفِ عالم نائن الیون کا) حملہ کیا گیا اور اِس کا ملبہ افغان طالبان اور اُن کے زیر سایہ اُسامہ بن لادن پر گرا۔ یہ سانحہ اب تاریخ کا حصہ ہے ۔

امریکا اب دوسری بار ایک افغان سے ڈسا گیا ہے ۔ چند دن قبل ایک افغان شہری ( رحمان اللہ لکنوال)نے امریکی صدر کی رہائشگاہ ، وہائیٹ ہاؤس، سے چند قدموں کے فاصلے پر تین امریکی فوجیوں(نیشنل گارڈز)پر اچانک حملہ کر دیا۔یہ حملہ گھات لگا کر (Ambush) کیا گیا ۔ 29سالہ افغان حملہ آور، رحمان اللہ لکنوال ، کے قاتلانہ حملے میں دو امریکی فوجی شدید زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں ایک نیشنل گارڈ خاتون (Sarah Backstorm) دو دن بعد زخموں کی تاب نہ لا کر موت کی وادی میں اُتر گئی ۔ دوسرا نیشنل گارڈ ابھی اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں پڑا سسک رہا ہے ۔ حملہ آور خود بھی زخمی ہے کہ اُسے تیسرے امریکی فوجی نے، جواباً، گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔

گولی چلانے کے ماہرافغان شہری ، رحمن اللہ لکنوال، کے اِس ہلاکت خیز حملے کی بازگشت امریکا بھر میں سنائی دے رہی ہے ۔ مغربی ممالک بھی افغان مہاجرین اور افغان طالبان سے ڈر گئے ہیں ۔ تقریباً چار سال قبل افغان حملہ آور، رحمن اللہ لکنوال، اُس وقت امریکا پہنچا تھا جب افغانستان سے امریکی فوجیں بھی واپس امریکا چلی گئی تھیں ۔ بتایا گیا ہے کہ افغان حملہ آور رحمن اللہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ بھی خدمات انجام دیتا رہا ہے ۔

اب امریکا میں اُس کا ویزہ ختم ہو چکا تھا ۔ اوپر سے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، نے امریکا میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف جو سخت کریک ڈاؤن شروع کررکھا ہے ، رحمن اللہ اِس کی وجہ سے بھی ممکنہ طور پر فرسٹریشن کا شکارہوگا۔ یہ معاملہ مگر ہنوز تفتیش طلب ہے (1) آیا رحمن اللہ لکنوال کا یہ انفرادی فعل ہے (2) آیا اُسے افغان طالبان کی اشیرواد حاصل ہے (3) آیا وہ افغان طالبان کے افغانستان میں دہشت گرد ’’داعش‘‘ یا ’’القاعدہ‘‘ سے نظریاتی اور تنظیمی تعلق رکھتا ہے ؟ وجہ خواہ کوئی بھی ہو، رحمن اللہ لکنوال نے امریکا ، مغرب اور شرقِ اوسط میں افغان شہریوں اور افغان مہاجرین کو بدنام کر دیا ہے ۔ اور پاکستان کا یہ موقف بھی ثابت ہو گیا ہے کہ آج کے مقتدر افغان طالبان کی دہشت گردیوں کے ہاتھوں سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہ گیا اور اگر افغان طالبان کو جلد اور اجتماعی عالمی طاقت سے کسی سخت نظم میں نہ لایا گیا تو یہ (مُلا عمر کے طالبان کی طرح) ایک بار پھر دُنیا بھر کے لیے عذاب بن جائیں گے۔

امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی (DHS) دن رات ایک کرکے حملہ آور افغان رحمن اللہ لکنوال کی تحقیق وتفتیش کررہا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اگر تیسرا نیشنل گارڈ گولی مار کر حملہ آور افغان کو زخمی نہ کر دیتا تو شائد یہ تینوں کی زندگیاں نگل جاتا ۔ رحمن اللہ لکنوال پر تین بڑے مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ اِنہی مقدمات کے پسِ منظر میں امریکی حکومت کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ رحمن اللہ کو اگر سزائے موت نہ سنائی گئی تو کم از کم عمر بھر کے لیے اُسے کسی امریکی جیل میں قید کر دیا جائے گا۔ امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، سخت غصے اور طیش میں ہیں۔

امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف وہ مزید بھڑک اُٹھے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر ، جو بائیڈن، پر بھی برستے ہُوئے کہا ہے :’’ یہ بائیڈن ہی تھے جن کے غیر مناسب اور غیر قانونی اقدامات کے کارن ہزاروں افغانوں کو امریکا میں داخل ہونے کے مواقع ملے۔

اِن کی اسکریننگ بھی نہ کی گئی۔ یوں میرے خدشات کو تقویت ملی ہے کہ اِن افغانوں میں زیادہ تر کریمینل تھے ۔‘‘ جو بائیڈن انتظامیہ نے اپنے Operation Allies Welcomeپروگرام کے تحت77ہزار افغانوں کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی ۔ ’’الجزیرہ‘‘ کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں پر حملہ آور افغان شہری، رحمن اللہ لکنوال، کی وجہ سے اب امریکا میں مقیم اِن 77ہزار افغان شہریوں کا مستقبل شدید خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ’’اِن77ہزار افغانوں کے ساتھ ساتھ ہر اُس شخص کی جانچ پڑتال ، اسکریننگ اور تفتیش کی جائے گی جو افغانستان سے امریکا آیا ہے۔‘‘

امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، نے غصے اور طیش میں طالبان کے افغانستان کوHellhole( جہنم کا سوراخ)قرار دے دیا ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طالبان کا افغانستان پاکستان کے ساتھ ساتھ دُنیا بھر کے لیے کتنے گمبھیر مسائل کا موجب بنتا جا رہا ہے۔

افغان طالبان کی کارستانیوں، شیطانیوں اور دہشت گردیوں کا دائرہ روز بروز پھیلتا جارہا ہے ۔ اور مہذب دُنیا کا غصہ بھی افغان طالبان کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف بڑھ رہا ہے ۔ اُمید لگائی گئی تھی کہ مُلّا ہیبت اللہ کے طالبان ، مُلّا عمر کے طالبان سے قدرے معقول اور معتدل ہوں گے ، مگر مُلّا ہیبت اللہ نے بھی اپنی ہٹ دھرمی کے سبب دُنیا کو مایوس کیا ہے ۔ متشدد اور متعصب افغان طالبان کے افغانستان کی جانب سے چند روزقبل اپنے ہمسائے ، تاجکستان ، پر جو حملہ کیا گیا ہے ، اِس نے بھی طالبان کے عزائم سے دُنیا بھر کو آگاہ کر دیا ہے ۔ تاجکستان پر کیے گئے حملے میں تین چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے ہیں ۔ چین نے اپنے شہریوں کی ہلاکت کے خلاف سخت ردِ عمل دیا ہے ۔تاجکستان بھی طالبان رجیم کے خلاف سخت سیخ پا ہے ۔ پاکستان نے چینی انجینئروں کے حوالے سے حملہ آوروں کی سخت مذمت کی ہے ۔

پہلے طالبان کے زیر قبضہ افغانستان سے تیار اور مسلح ہو کر ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے دہشت گرد پاکستان میں بروئے کار چینی انجینئرز کے خلاف خونریز حملے کرتے تھے۔ یہ حملے دراصل دوحہ معاہدے کی بھی صریح خلاف ورزی تھے اور افغان طالبان کی محسن کشی بھی ۔ اب تاجکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئرز پر بھی حملہ کرکے افغان طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان سے متصل تاجکستان کی1360 کلومیٹر طویل سرحد بھی غیر محفوظ ہے : ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں !!

امریکا اور تاجکستان پر اگر افغان شہری اور افغان طالبان نے مبینہ طور پر حملے کیے ہیں تو ایک تازہ حملہ بھارتی وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ، نے بھی پاکستان پر کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کی کابینہ میں چار افراد ایسے ہیں جو اپنی پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی میں ’’بے مثال‘‘ حیثیت رکھتے ہیں:(۱) خود وزیر اعظم مودی (۲) بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ (۳) مودی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈووَل (۴) وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ! اگلے روز اِسی راجناتھ سنگھ نے بھارت میں موجود مہاجر سندھی ہندوؤں کی کمیونٹی/ تنظیم (Sindhi Samaj Sammelan) سے خطاب کرتے ہُوئے یوں دریدہ دہنی کی :’’ آج سندھ کی زمین بھلے ہندوستان کا حصہ نہیں ہے ۔

لیکن تہذیبی اور ثقافتی طور پر سندھ ہمیشہ ہندوستان کا حصہ رہے گا ۔ اور جہاں تک زمین کا تعلق ہے ، سرحدیں بدل سکتی ہیں۔ کون جانتا ہے کہ کل سندھ دوبارہ ہندوستان میں ضَم ہو جائے ۔‘‘پاکستان اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے راجناتھ سنگھ کے اِس حملے کو پوری توانائی سے پسپا اور مسترد کیا ہے ۔ سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر بھارتی وزیر دفاع کے خلاف قرار داد منظور کرکے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ، جناب مراد علی شاہ، نے جواباً راجناتھ سنگھ کو جو دندان شکن جواب دیا ہے، بھارت بھر میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ واضح رہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت تقریباً دس لاکھ سندھی ہندو بھارت چلے گئے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق آج اُن کی آبادی تین کروڑ تک پہنچ گئی ہے ۔ بھارت کے سابق وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی( جنھوں نے رَتھ یاترا نکال کر بھارت میں موجود صدیوں پرانی بابری مسجد شہید کر ڈالی تھی) بھی سندھ ہی سے تعلق رکھتے تھے ۔ آج ’’بی جے پی ‘‘کی رگوں میں جو پاکستان دشمنی دوڑ رہی ہے، یہ دراصل متعصب ایل کے ایڈوانی ہی کا ’’کارنامہ‘‘ ہے ۔

Similar Posts