بیرون ملک قید پاکستانیوں کے ذمے دار

فلاحی عالمی ادارے سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروق قادری نے حکومت پاکستان سے سوال کیا ہے کہ 21 ہزار پاکستانی کیوں بیرون ملک کی جیلوں میں قید ہیں اور ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ پاکستانی کن وجوہات کی بنا پر مختلف ممالک کی جیلوں میں ہیں اور کیا وہاں دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ بھی پاکستانی قیدیوں جیسا سلوک ہو رہا ہے؟ بانی سیلانی ٹرسٹ نے یہ بھی کہا کہ ہماری ریاست ملک میں جزا اور سزا کے قانون پر عمل کرانے میں ناکام ہے، اگر قانون کی خلاف ورزیوں پر سزا ملتی تو لوگ مجرمانہ سوچ اور سرگرمیوں سے دور رہتے اور انھیں سزاؤں کا خوف بھی ہوتا۔

 یاد رہے کہ ڈنکی لگا کر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کا سلسلہ نیا نہیں سالوں پرانا ہے اور لوگ اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر کسی نہ کسی طور روزگار کے حصول کے لیے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں جن میں بہت کم لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور وہاں جا کر غیر قانونی داخلے کے باعث ہر وقت پکڑے جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ انھیں روزگار نہیں ملتا جس کی وجہ سے انھیں فٹ پاتھوں پر راتیں گزارنا پڑتی ہیں اور بھیک مانگ کر پیٹ کی آگ بجھانی پڑتی ہے۔

برطانیہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہاں بے روزگاری کی یہ حالت ہے کہ جو لوگ قانونی طور پر وہاں گئے ہیں وہ بڑی تعداد میں مختلف بہانوں سے شہریت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اب وہاں بھی سختی ہوگئی ہے اور برطانوی شہریت کا ملنا آسان نہیں رہا اور شہریت کے بغیر انھیں کوئی ملازمت بھی نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ فٹ پاتھوں پر رہنے اور خوراک کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکا میں بھی غیر ملکیوں کے لیے ٹرمپ حکومت نے قوانین سخت کر دیے ہیں اور قانونی طور امریکا جانے والوں کو بھی نوکری نہیں مل رہی کیونکہ وہاں بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔

حصول روزگار اب ترقی یافتہ ممالک میں مسئلہ بنا ہوا ہے اور پاکستان جیسے غریب اور پس ماندہ ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے جہاں ساٹھ لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں اور ملک میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح سے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں جن میں زیادہ تعداد بے ہنروں کی ہے جب کہ بیرون ممالک میں تو ہنرمندوں کو بھی مشکل سے نوکری میسر آتی ہے۔

بیرون ممالک کی صورتحال کا پاکستان کے بے روزگاروں کو بھی علم ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ باہر چلے جائیں اور نوکری ملنے تک وہ بھیک مانگ کر گزارا کر ہی لیں گے اور سیٹ ہو ہی جائیں گے۔ اپنے ملک سے مایوسی اور بیرون ملک روزگار کی امید پر بے روزگار نوجوان اپنے گھر والوں کو بھی اچھے مستقبل کی امیدیں دلا کر انھیں راضی کر لیتے ہیں کہ وہ انھیں جائیدادیں فروخت کر کے یا قرضے لے کر باہر جانے کا موقعہ دے دیں۔

نوجوانوں کو جھوٹے خواب دکھا کر انھیں قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجنے والے جعل سازوں کی کمی نہیں بلکہ اکثر لاکھوں روپے بٹور کر بے روزگاروں کو گمراہ کر رہے ہیں جن میں انسانی اسمگلر اور بعض ٹریول ایجنٹس ملوث ہیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے کے بعض افسران بھی ملوث ہیں اور ان کا کردار بھی مایوس کن ہے۔ بعض افسروں کی ملی بھگت سے انسانی اسمگلر خفیہ سمندری راستوں سے کشتیوں کے ذریعے لاکھوں روپے رشوت لے کر بے روزگاروں کو موت کے منہ میں دھکیلتے ہیں جن کی کشتیاں ڈوب یا پکڑی جاتی ہیں اور بچ جانے والے متعلقہ ممالک میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور وہاں کی جیلوں میں سڑتے اور مرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً 21 ہزار پاکستانی بیرون ممالک قید ہیں جن کی طرف سیلانی ٹرسٹ نے توجہ دلائی ہے اور اس اہم مسئلے پر حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے جو خود اس کی ذمے دار ہے۔

ایف آئی اے نے 2023 میں اپنے ان افسروں کا احتساب دو سال بعد کیا ہے جو یونان میں کشتی ڈوبنے کے حادثے کی غفلت کے مرتکب تھے مگر انھیں بھیجنے والے انسانی اسمگلروں کو کیا سزا ملی یا وہ عدالتوں کے ذریعے ضمانت پر رہا ہیں اور بااثر لوگ انھیں بچا رہے ہیں کسی کا کچھ پتا نہیں کیونکہ مولانا بشیر فاروق قادری کے بقول قصور ہماری ریاست کا ہے جو ملک میں جزا و سزا کے قانون پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے جس کی وجہ مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ ہی انھیں سزا ملتی ہے جس کی وجہ  سے لوگوں میں مجرمانہ سوچ اور سرگرمیاں عروج پا رہی ہیں۔ انسانی اسمگلروں کو بااثر عناصر کی سرپرستی حاصل ہے۔

اس لیے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے لاکھوں روپے لے کر بے روزگاروں کو روزگار کا آسرا دے کر غیر قانونی طور پر باہر بھجوانے میں مصروف ہیں مگر حکومت جس کی یہ ذمے داری ہے وہ اس انسانی مسئلے پر سنجیدگی سے کوشش نہیں کر رہی، جسے صرف باہر سے آنے والے زرمبادلہ سے دلچسپی ہے اور ملک میں موجود شدید بے روزگاری کا حل تلاش کرنے کی بجائے وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہہ دیا ہے کہ حکومت کا کام نوکریاں دینا نہیں ہے اگر ایسا ہی ہے تو سیاسی بنیادوں اور لاکھوں روپے کی رشوت پر نوکریاں ملک میں کیسے مل رہی ہیں؟ وزیر خزانہ اس سلسلے میں لوگوں کو اپنی سوچ بدلنے کا کہہ رہے ہیں، مگر انھیں یہ بھی پتا ہے کہ ملک سے باہر ملازمتیں کرنے والے ہی اپنے ملک کے لیے زرمبادلہ فراہم کر رہے ہیں۔

بیرون ممالک روزگار دلانے والیوزارت کی کیا یہ ذمے داری نہیں کہ اگر ملک میں نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں تو اپنے ملک کے لاکھوں بے روزگاروں کو بیرون ممالک ملازمتوں کی فراہمی کی خود حکومت کوشش کرے۔ وزیر اعظم تقریباً تین درجن غیر ملکی دورے کر چکے ہیں جہاں انھیں ملک کے بے روزگاروں کو روزگار دلانے کی وہاں کے ذمے داروں سے بات کرنا چاہیے تھی تاکہ ملک کے بے روزگاروں کو سرکاری طور پر وہاں بھیجا جا سکے جو بعد میں ملک کو زرمبادلہ بھی بھیج سکیں گے۔

بعض ممالک میں پاکستانیوں سے امتیازی سلوک بھی ہو رہا ہے جس کی طرف سیلانی ٹرسٹ کے بانی نے توجہ بھی دلائی ہے جس پر حکومت کی توجہ کی فوری ضرورت ہے تاکہ انھیں ملک واپس لایا جا سکے۔ ملک کے بے روزگاروں کی قابلیت بڑھانے اور ان کو آئی ٹی کی تعلیم دینے کے لیے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اور جماعت اسلامی کوشش کر رہی ہے یہ کوشش حکومت کو بھی کرنا چاہیے تاکہ غیر قانونی طور پر باہر جانے والوں کی سوچ بدل سکے۔

Similar Posts