صلۂ رحمی کا معنی و مفہوم:
صلۂ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نسبی عزیزوں اور رشتے دارو ں سے اچھا سلوک کرنا، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے احوال کی رعایت کرنا۔ نسبی رشتہ دار سے مراد وہ ہے جو آپ کا پیدائشی رشتہ دار ہو، چاہے وہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے ہو، قریب کا ہو یا دور کا ہو۔
اﷲ رب العزت کا ارشادِ گرامی کا مفہوم ہے:
’’اور یہ ایسے ہیں کہ اﷲ نے جن علاقوں ( رشتوں) کے قائم رکھنے کا حکم کیا ہے، ان کو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے اہلِ ایمان کو صلۂ رحمی کی تعلیم دی ہے۔ یعنی قریبی رشتہ داری نبھائے رکھنا، اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنا، اور اسی پر بس نہیں، بلکہ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت نے اس مرجعِ کائنات کی بھی تعیین کردی، جس کی بنی آدم کو سخت ضرورت تھی، چناں چہ اﷲ رب العزت کا فرمانِ گرامی ہے، مفہوم:
’’تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اﷲ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو، اس کے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی زندگی کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘
چناں چہ اس آیت مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے تمام احکامات پر چاہے ان کا تعلق بدن سے ہو، مال سے ہو، عمل کرنے کے ایک مشکل ترین مسئلے کا حل بتلا کر تمام مشکلات آسان فرما کر امت کو ایک بہترین مرجع عطا فرما دیا۔ یعنی یہ آیتِ کریمہ رسول اﷲ ﷺ کے اقوال، افعال، اور احوال کی پیروی کرنے میں ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو قابلِ عمل ہے، چاہے اس کا تعلق اقوال سے ہو، افعال سے ہو یا احوال سے ہو۔ روزِ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ایک اصول فراہم کردیا، اور اُمتِ مسلمہ کو اپنے اعمال پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی مہیا کردی کہ ہر عمل رسول اﷲ ﷺ کے طریقوں پر ہو، اور اسی میں دونوں جہاں کی کام یابی کا راز مضمر ہے۔
مفہوم: ’’پھر اﷲ رب العزت نے اپنے ایمان والے بندوں کو اپنی، اور اپنے رسول (ﷺ) کی اطاعت کا حکم دیا، جو کہ دنیا و آخرت دونوں میں ان کے لیے نیک بختی کا ذریعہ ہے۔‘‘
صلۂ رحمی کی اہمیت اور رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات:
جب بھی ضرورت پڑتی گئی جناب رسول اﷲ ﷺ اپنی امت کو منشاء خداوندی کے مطابق مختلف تعلیمات سے آشنا کرتے گئے، یہ تعلیمات کبھی آپ ﷺ نے اپنے اقوالِ مبارکہ کے ذریعہ دیں تو کبھی ان اقوالِ مبارکہ کو اپنے افعالِ مبارکہ کے سانچے میں ڈھال کر امت کے سامنے پیش کرکے ان کی آنے والی مشکلات کو آسان فرمایا، چناں چہ بہت ساری احادیث مبارکہ جن میں رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کو صلۂ رحمی کی تعلیم دی، کبھی تو یہ تعلیمات آپ ﷺ نے صلۂ رحمی کی اہمیت اجاگر کرکے دیں، تو کبھی صلۂ رحمی اور دینِ اسلام کے درمیان ایک مضبوط تعلق بتلا کر دیں، تو کبھی بہ ذاتِ خود اپنے قریبی رشتے داروں کی خدمت کرکے ان تعلیمات سے ہمیں رُوشناس کیا۔ ام المومنیین جناب عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ ﷺ سے روایت کرتی ہیں، مفہوم:
’’رحم یعنی رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑ دیا، اﷲ رب العزت اس کو جوڑ دے گا، اور جس نے مجھے توڑ دیا اﷲ رب العزت اسے توڑ دے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں رسول اﷲ ﷺ نے صلۂ رحمی کی اہمیت کے ساتھ صلۂ رحمی اور دینِ اسلام کا آپس میں ایک گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلۂ رحمی کی عظمت، اس کے جوڑنے والے کی عظمت، اور اس کے توڑنے والے کو اس کے وبال کے مستحق ہونے کی خبر دی ہے۔
اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہا جو کہ ام المومنیین جناب عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی بڑی بہن ہیں، وہ فرماتی ہیں: میری والدہ شرک کی حالت میں (مکہ سے مدینہ) آئیں، جب کہ قریش کے ساتھ صلح کا زمانہ تھا (مراد اس سے صلح حدیبیہ ہے، چوں کہ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا تھا اور اسی صلح کے زمانے میں آپ کی والدہ مدینہ آئی تھیں) پس میں نے دریافت کیا: ’’اے اﷲ کے رسول ﷺ! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں، حالاں کہ وہ اسلام کے قبول کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں، کیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
اس سے معلوم ہُوا کہ قریبی رشتہ دار اگر مشرک ہو تب بھی شریعت محمدیہ ﷺ میں اس کے حقوق کی رعایت رکھی گئی ہے، اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
جعرانہ میں نبی کریم ﷺ گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ اچانک ایک عورت آئیں، یہاں تک کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کے قریب پہنچی تو آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے بچھادی، سو وہ اس پر بیٹھ گئیں، وہ رسول اﷲ ﷺ کی رضائی ماں تھیں، جنھوں نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔
صلۂ رحمی کے ثمرات رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کے تناظر میں
ذخیرہ احادیث میں رسول اﷲ ﷺ نے صلۂ رحمی کے فائدے بتلاتے ہوئے کہیں تو اس کو رزق کی فراخی کا سبب، کہیں عمر دراز ہونے کا ذریعہ، کہیں رشتہ دارو ں کی باہمی محبتوں کی زیادتی کا سبب، کبھی رحمتوں کے نزول کا وسیلہ، کہیں جہنم جیسے عذاب سے خلاصی کا ذریعہ، یہاں تک کہ جنت جیسی عظیم نعمت کے حصول کا سبب قرار دیا۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری روایت میں جناب رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم:
’’تم اپنے انساب میں سے اتنا سیکھو کہ جس کے ذریعہ تم اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرسکو، بے شک! قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا باہمی محبت کا سبب، کثرتِ مال کا ذریعہ اور درازیِ عمر کا باعث بنتا ہے۔‘‘
چناں چہ رسول اﷲ ﷺ صلۂ رحمی کو بارانِ رحمت کا سبب بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم:
’’اس قوم پر رحمت نہیں اترتی جس میں قطع رحمی کرنے والا ہو۔‘‘
اس حدیث مبارک میں رسول اﷲ ﷺ صلۂ رحمی کی اہمیت بتلانے کے ساتھ یہ خبر بھی دے رہے ہیں کہ تم میں سے جو رب ذوالجلال کی رحمت کا متقاضی ہو، اسے چاہیے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا اسلوک کرے، یہاں تک کہ ایک روایت میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اﷲ ﷺ قطع رحمی کرنے والے کی دخولِ جنت سے نفی فرما کر جنت کے حصول کا سبب بھی اسی کو قرار دے رہے ہیں۔ پس یہ تمام احادیث جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیں اہلِ معاشرہ کو اُخوت، بھائی چارگی، باہمی محبت اور اتفاق و اتحاد کا درس دے رہی ہیں اور ایک بہترین معاشرہ فراہم کرنے کے اصولوں کی نشان دہی کررہی ہیں۔
جب کہ آج ہمارا معاشرہ رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے ہی دن بہ دن تنزلی کی طرف گام زن ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج قریب سے قریب تر رشتہ دار چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بند کردیتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا تقاضا کرتے ہوئے علاحدگی کی راہ اختیار کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ سگے بھائی میراث کی تقسیم میں ادنیٰ سے اختلاف پر قتل و قتال اور کورٹ کچہریوں کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں، پس لامحالہ نتیجا یہ نکلتا ہے کہ طلاق کی شرح روز بہ روز بڑھتی چلی جاتی ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا چلا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک اچھا بھلا معاشرہ تباہی کے آخری درجہ پر پہنچ جاتا ہے بلکہ پہنچ گیا ہے۔
اگر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور رسول اﷲ ﷺ کی بتلائی ہوئی ان تعلیمات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے اور ان تعلیمات کو اہلِ معاشرہ میں عام کیا جائے اور اس کی تعلیم سے ان کے سینوں کو مزین کرنے کے ساتھ ان اصولوں کو جو رسول اﷲ ﷺ کے ذخیرۂ احادیث میں ہمیں ملتے ہیں، ان کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بہ روئے کار لایا جائے، تاکہ معاشرے میں روز مرہ کی بنیاد پر پیش آنے والے نِت نئے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ اور ہمارا معاشرہ قابل رشک منظر پیش کرتے ہوئے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مثال بن سکے۔
اﷲ تعالی ہمیں ان تعلیمات، ہدایات اور احکامات پر عمل پیرا ہونے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین