عقد مواخات

ہجرت کے بعد بڑا مسئلہ مہاجرین مکہ کی آباد کاری کا تھا اس کی ممکنہ صورتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ علاحدہ طور پر مہاجرین کی بستی تعمیر کی جاتی لیکن پیغمبر انقلاب ﷺ کی فراست اور مردم شناس نگاہ نے اسے یک سر مسترد کر دیا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی تھیں مثلاً: پہلی وجہ یہ تھی کہ علاحدہ آبادی سے مہاجرین و انصار کے درمیان باہمی یگانگت، ایثار و اخلاص، مساوات اور الفت پیدا نہ ہوتی۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ تعلیم و تربیت، باہمی احتساب اور دکھ سْکھ میں شرکت کے لحاظ سے جو مساوی سطح کی ضرورت تھی علاحدہ آبادی اس میں خلیج بن جاتی۔ اور سب سے بڑھ کر انصار کا مثالی تعاون اور ان کے قلبی جذبات مشاہدہ بن کر سامنے نہ آسکتے اس لیے مہاجرین کی علاحدہ آباد کاری نہ کی گئی۔

عرب میں ایک طریقہ ’’عقدِ موالات‘‘ کا رائج تھا یعنی غیر قبیلہ کا کوئی آدمی کسی اور قبیلہ میں پہنچتا اور معاہدہ کر کے اس قبیلہ میں داخل ہوجاتا اور اس کے بعد اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتا، اس کے بعد وہ شخص صلح اور جنگ میں اسی قبیلے کے ساتھ شریک رہتا، اس شخص کے مرنے کے بعد اس کا ترکہ بھی اسی قبیلہ میں تقسیم کیا جاتا۔ اس عقد موالات میں حق و انصاف کے بہ جائے خواہ قبیلہ والے غلط، ناانصافی بلکہ ظلم بھی کر رہے ہوں بہ ہر حال اسی قبیلہ کی طرف داری اور حمایت ضروری ہوتی تھی، اسلام نے اسے حرام بتلایا اور یہ تعلیم دی کہ ہر حال میں حق اور انصاف کا ساتھ دو یہاں تک کہ اگر وہ تمہارے اپنوں کے خلاف ہی ہو۔

آپ ﷺ نے عقد مواخات قائم کیا اور فطری طور پر ہم مزاجی کا خیال فرماتے ہوئے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا نام بہ نام بھائی قرار دیا۔ اس کے بعد انصار دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان کھجوروں کے باغات تقسیم فرمائیے! انصار یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کا حصہ زمین اور باغات ان کے قبضے میں دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کے ساتھ اس میں جو کچھ تصرف کرنا چاہیں تو کر سکیں۔

نبی کریم ﷺ نے ان کے ایثار و اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن اپنی نگاہ بصیرت و فراست کے پیش نظر اسے منظور نہیں فرمایا، کیوں کہ اس سے مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا۔ جائیداد کی تقسیم سے مہاجرین صاحبِ جائیداد تو ضرور بن جاتے لیکن تاجر پیشہ ہونے اور زراعت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر مضبوط نہ ہو سکتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ باغات دینے کے بہ جائے باغات کی پیداوار کا حصہ مہاجرین کو دیا جائے، انصار مدینہ نے کہا جو حکم ہو تعمیل کریں گے۔

چشم فلک نے انقلابات زمانہ تو کئی دیکھے لیکن رسول کریم ﷺ کے انقلاب جیسا انقلاب نہیں دیکھا کہ بغیر جبر و اکراہ زمین دار خود کاشت کاری کر کے پردیسی و اجنبی لوگوں کو پیداوار کا مقرر حصہ دیتے رہے۔ انصارِ مدینہ اگرچہ یہی چاہتے تھے کہ زمینیں بھی مہاجرین کو دے دی جائیں لیکن آپ ﷺ نے اسے قبول نہ فرمایا بلکہ مہاجرین کو عارضی ملکیت دی جب حالات سازگار ہوئے اور مہاجرین خود صاحب جائیداد ہو گئے تو انصار کو زمینیں واپس کر دی گئیں۔ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ ﷺ! مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا، وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔

ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور ﷺ کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور آپ چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چناں چہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گذاری۔ اﷲ نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ ﷺ نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا، کو عنایت فرمایا، وہ شخص آپ کی اس دریا دلی فیاضی سخاوت اور ایثار وہم دردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا : ’’اے لوگو! اسلام لے آؤ کیوں کہ اس دین کی طرف بلانے والے جناب محمد ﷺ اس قدر سخی ہیں اور اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیعؓ کے درمیان بھائی بندی قائم فرمائی۔ ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیعؓ نے کہا کہ میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں اس کے علاوہ میری دو بیویاں ہیں۔ تم انھیں دیکھ لو (ابھی پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے) اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوں گا اور عدت کے بعد تم اس سے نکاح کرلینا۔ آپ نے جواب میں کہا کہ خدا تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے مجھے کوئی بازار بتادو کہ میں وہاں جاکر تجارت کروں چناں چہ انھیں بنو قینقاع کا بازار بتا دیا گیا۔

4ہجری میں قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا (نعوذ باﷲ) وہ کام یاب نہ ہوئے 1ہجری میں ان سے جو معاہدہ تھا انھوں نے خود اس کی خلاف ورزی کرکے توڑ دیا، اس لیے ان کا علاقہ بغیر جنگ کے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا چوں کہ یہ بغیر جنگ کے اہل اسلام کے قبضہ میں آیا اس لیے مجاہدین اسلام میں تقسیم نہ ہوا بلکہ اسے خاص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حق قرار دیا گیا یعنی آپؐ اس مال میں حق تولیت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کے سامنے صحابہ کرامؓ کی مشکلات تھیں، آپ ﷺ نے انصار کو جمع فرما کر ان کی رائے معلوم کرنا چاہی کہ یہ زمین انصار و مہاجرین دونوں میں تقسیم کی جائے یا صرف مہاجرین کو دے دی جائے تاکہ وہ انصار کی زمینیں واپس کریں اور ان کے مکانات خالی کر دیں؟ اوس و خزرج کے دونوں سردار سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہما نے عرض کیا: آپ ﷺ یہ سب کچھ مہاجرین میں تقسیم فرما دیں ہم اپنے مکانات و باغات اور زمینیں واپس نہیں لیتے بلکہ ہمیں خوشی ہوگی کہ ہماری کچھ اور زمینوں کا حصہ مہاجرین کو عنایت فرمایا جائے۔

یہ سن کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار کو دعا دی: ’’اے اﷲ! انصار اور ان کی اولادوں پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔‘‘ چناں چہ آپ ﷺ نے اس زمین کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو ضرورت مند انصاری حضرت ابو دجانہ اور سہل بن حنیف رضی اﷲ عنہما کو بھی دیا، باقی اپنے پاس رکھا اور اس پر کاشت ہوتی تھی جس کی پیداوار سے ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہم کا نان و نفقہ ادا فرماتے۔ کچھ عرصہ بعد بحرین کا علاقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ بنا ، آپ ﷺ نے اس موقع پر بھی انصار کو کچھ دینے کا ارادہ فرمایا لیکن انھوں نے بہ صد ادب یہ عرض کی کہ ہمیں دینے کے بہ جائے مہاجرین کو عنایت فرمائیں۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات میں مواخات کا درس ملتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعض احکام کہ ترکہ میں وراثت وغیرہ تو شرعاً منسوخ ہوگئے لیکن باہمی یگانگت، ایثار و اخلاص، ہم دردی و اخوت، الفت و محبت اور مساوات سے معاشرتی و اقتصادی تعلقات کو مربوط و مضبوط کرنے کا حکم اب بھی باقی ہے۔

Similar Posts